سیلاب سے متاثرہ کسانوں کے مظاہرے
31 دسمبر 2010صوبہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے چھوٹے کسانوں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لئے جمعے کو ایک غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ‘ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے جو کتبے اور بینرز اٹھا رکھے تھے ان پر زرعی قرضوں کی معافی ، کھاد اور بیجوں کی مفت فراہمی کے علاوہ وطن کارڈ کے اجراء اور سردی سے بچاﺅ کے لئے عارضی رہائش گاہیں مہیا کیے جانے کے نعرے درج تھے۔
خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے آئے ہوئے کسان محمد حسن نے کہا کہ سیلاب کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی ان کا علاقہ حکومتی امداد سے محروم ہے۔ وسائل کی عدم دستیابی کے سبب وہ تمباکو، چقندر اور گنے کی فصل نہیں بیج سکے۔ محمد حسن نے مطالبہ کیا کہ حکومت ان کی زرعی زمین پر ٹیکس معاف کرے۔ انہوں نے کہا:’’زرعی قرضے اور آبیانہ معاف کیا جائے۔ سیلاب آتے ہیں تو میڈیا آتا ہے ۔کچھ بہتری کی امید پیدا ہوتی ہے پھر چار سال بعد وہی صورتحال ہوتی ہے۔وہی پرانی فائلیں کھول کر آبیانہ وصول کیا جاتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ زرعی قرضے اور آبیانہ مکمل طور پر معاف کیا جائے ۔‘‘
سندھ کے ضلع گھوٹکی کی متاثرہ ہاری خاتون خالدہ پروین نے کہا کہ فصلوں کی تباہی اپنی جگہ لیکن صحت و صفائی کا انتظام نہ ہونے کے سبب ان کے علاقے میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔انہوں نے کہا:’’ابھی تک بارش اور سیلاب والا پانی کھڑا ہے ابھی تک نہ تو ہمیں وطن کارڈ میں ملا ہے اور نہ زمینوں کے لئے کھاد بیج ملا ہے۔ ہمیں معاوضہ دیا جائے اور ہمارے مسائل حل کئے جائیں۔‘‘
جنوبی پنجاب کی نوراں مائی کو بھی فصل سے زیادہ اپنے بچوں کی پڑھائی کی فکر تھی جو سیلاب کے بعد اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ پائے۔نوراں مائی نے بتایا:’’میری ایک بیٹی ہے اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹا دسویں کے بعد اب بارہویں کے پیپر دینے آیا ہے بیٹی ساتویں جماعت میں ہیں ۔میرے پاس خرچہ نہیں میں بہت مجبور ہوں مری مدد کی جائے۔‘‘ بلوچستان کسان اتحاد کے کوآرڈی نیٹر حاجی انعام اللہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے کسانوں کے حالات سب سے خراب ہیں جو اب بھی کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کے لئے سب سے بڑا مسئلہ مشینری کے ذریعے اپنی زمینوں کو دوبارہ قابل کاشت بنانا ہے۔ انہوں نے کہا:’’بیج سے پہلے ان کاشتکاروں کو بلڈوزر سے زمین ہموار کر کے دی جائے۔‘‘
ایکشن ایڈ ایشاءکے خوراک و زراعت کے مشیر آفتاب احمد نے کہا کہ حکومت نہ تو آبپاشی نظام بحال کر سکی اور نہ ہی کسانوں کو متبادل زرعی اجناس کی پیداوار کیلئے رہنمائی فراہم کی گئی۔ انہوں نے کہا:’’این جی اوز اور اقوام متحدہ کے اداروے اتنے موثر انداز میں لوگوں کی مشکلات اور مسائل کو حل نہیں کر سکتے جتنی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایک ایسی اتھارٹی قائم کی جائے جہاں پر کسان اپنے مسائل لے کر جائے۔‘‘ اس سال بائیس جولائی کو آنیوالے تباہ کن سیلابوں کے بعد لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں اور زرعی زمین تباہ ہو گئی تھی۔ کسانوں کے مسلسل احتجاج کے باوجود ان کی آواز حکومتی ایونوں تک پہنچتی نظر نہیں آتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مصیبت کے مارے ان افراد کے لئے نیا سال کیا پیغام لے کر آ تا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: امتیاز احمد