شامی بحران کے حل کے لیے روسی سفارتی کوششوں میں تیزی
3 نومبر 2015نیوز ایجنسی انٹر فیکس نے روس کے نائب وزیر خارجہ میخائل بوگدونوف کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا ہے،’’ہم آئندہ ہفتے اپوزیشن نمائندوں کو مشاورت کی غرض سے ماسکو مدعو کریں گے۔ یہ ملاقات غالباً شام کے حکومتی نمائندوں کے ساتھ ہوگی‘‘۔ بوگدونوف نے تاہم یہ نہیں بتایا کہ اس اجلاس میں کون کون سے اپوزیشن اراکین شامل ہوں گے۔
ماسکو کی طرف سے شامی تنازعے کے سیاسی حل کے لیے سفارتی کوششوں میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہ وہ تنازعہ ہے جو اب تک دو لاکھ پچاس ہزار انسانوں کو بے گھر کرنے کا سبب بن چُکا ہے۔
روس کی وزارت خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ بُدھ کو اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے شام اسٹیفن دے مستورا سے ماسکو میں ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں وہ دمشق اور شامی اپوزیشن کے مابین مکالمت شروع کرنے کی کوششوں کے بارے میں بات چیت کریں گے۔
گزشتہ جمعے کو ویانا میں ہونے والے بین الاقوامی امن مذاکرات میں روس نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ روس کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ مستقبل میں شام کے بحران کے بارے میں ہونے والی بات چیت میں شامی اپوزیشن گروپ بھی شامل ہوں۔ اس سلسلے میں اس نے سعودی عرب کے ساتھ ایک 38 ناموں کا تبادلہ بھی کیا ہے۔
اس فہرست میں زیادہ تر نیشنل کوئلیشن فار سیریئن ریوولوشنری اینڈ اپوزیشن فورسز SNC کے سابقہ اور حالیہ اراکین کے نام شامل ہیں۔ یہ شام میں مغرب نواز سیاسی اپوزیشن بلاک ہے۔
ان ناموں میں SNC کے سابق سربراہ معاذ الخطیب اور موجودہ صدر خالد خوجہ کے ساتھ ساتھ سیاسی، مذہبی اور نسلی متنوع گروپوں، جس میں اخوان المسلمون اور کرسچئین پرو ڈیموکریسی موومنٹ کے نمائندوں کے نام بھی شامل ہیں۔
خالد خوجہ نے گزشتہ ویک اینڈ پر کہا تھا کہ شام میں روسی فضائی حملوں کا مقصد صدر بشار الاسد کو سہارا دینا تھا اور ان حملوں سے اسلامک اسٹیٹ کو مزید مدد ملی ہے جو ملک کے زیادہ تر علاقوں کا کنٹرول سنبھال چُکے ہیں۔
کریملن کے ایک ترجمان دمتری پشکوف نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ روس کی شام میں عسکری حکمت عملی کو گزشتہ ویک اینڈ پر مصر میں ہونے والے ہوائی جہاز کے حادثے کی تحقیقات کے نتائج سے جوڑنا ایک غیر مناسب عمل ہے۔