’ویانا مذاکرات میں شامی اپوزیشن کو مدعو نہیں کیا گیا‘
29 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے روئٹرز نے شامی اپوزیشن کے ایک رہنما کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام میں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہونے والے مذاکرات میں انہیں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ سیریئن کولیشن کے رکن جارج صبرا نے کہا کہ اس مذاکراتی عمل میں شامیوں کو مدعو نہ کرنا، دراصل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں سنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیریئن کولیشن کے نمائندوں کو بھی دعوت نہیں دی گئی۔
جارج صبرا کے مطابق ویانا میں عالمی طاقتیں شام کے مسئلے پر گفتگو کریں گی لیکن اس عمل میں شامی شریک نہیں ہوں گے اور یہ بات ان مذاکرات کی کامیابی کے حوالے سے منفی تاثر دیتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ شام میں قیام امن کے عمل کو مؤثر اور کامیاب بنانے کے لیے شامی عوام کی شمولیت ناگزیر ہے۔ صبرا نے مزید کہا کہ اس مذاکراتی عمل میں ایران کی شرکت فائدہ مند نہیں ہو گی، ’’شام میں امن کے لیے ایران ثالثی نہیں کر سکتا، اس کے فوجی شام کے متعدد محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔‘‘
ادھر فری سیریئن آرمی سے منسلک ’یرموک آرمی‘ کے کمانڈر بشار الزعبی نے بھی روئٹرز سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ شامی اپوزیشن کے مسلح دھڑے کو بھی ویانا مذاکرات میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ الزعبی نے بھی ان مذاکرات میں ایران کو شامل کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، ’’ایران اس مسئلے کا حل نہیں بلکہ جڑ ہے۔ ویانا مذاکرات میں تہران کی شرکت سے یہ حقیقت دنیا پر واضح ہو جائے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ترکی اور سعودی عرب نے ایران کو اس لیے ان مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی ہے تاکہ دنیا پر ایران کی حقیقت واضح کر دی جائے۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ شامی اپوزیشن نے ویانا مذاکرات میں ایران کی شرکت پر اعتراض کیا تھا۔ تہران حکومت شامی صدر بشار الاسد کی ایک اہم اتحادی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شیعہ اکثریتی ملک صدر اسد کو نہ صرف مالی بلکہ عسکری تعاون بھی فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ باغیوں کے خلاف لڑ سکیں۔
ویانا مذاکرات میں سعودی، عرب، ترکی، مصر اور دیگر اہم علاقائی طاقتیں بھی شریک ہوں گی۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری جمعرات کے دن ویانا پہنچ گئے۔ شامی بحران کے حل کی خاطر اس مذاکراتی عمل میں بیس ممالک کے رہنما شریک ہوں گے۔ تاہم امریکا، روس، ایران اور سعودی عرب توجہ کا مرکز تصور کیے جا رہے ہیں کیونکہ یہ ممالک شامی بحران کے کسی بھی حل کے لیے انتہائی اہم خیال کیے جاتے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف بھی جمعرات کی شام تک آسٹریا پہنچ جائیں گے۔ شام میں قیام امن کی خاطر جاری عالمی کوششوں میں ایران کو پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر عالمی مذاکرات میں مدعو کیا گیا ہے۔ شام میں گزشتہ چار سالوں سے جاری شورش کی وجہ سے اقوام متحدہ کے مطابق ڈھائی لاکھ افراد ہلاک جبکہ لاکھوں دیگر بے گھر ہو چکے ہیں۔