شامی صدر کی طرف سے عام معافی کا اعلان
21 جون 2011شام کے سرکاری خبر رساں ادارے SANA کی طرف سے جاری کی جانے والی خبر کے مطابق: ’’صدر اسد نے ایک فرمان جاری کیا ہے جس میں 20 جون سے پہلے پہلے کیے جانے والے جرائم پر عام معافی دے دی گئی ہے۔‘‘
اس سے قبل بشار الاسد نے 31 مئی کو بھی ایک معافی کا اعلان کیا تھا جس میں اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والوں سمیت تمام سیاسی قیدیوں کے لیے معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو اس اعلان کے بعد رہا کیا گیا تھا۔
شامی صدر نے پیر کے روز اپنے خطاب میں کہا تھا: ’’ میرا خیال ہے کہ پہلے دی جانے والی معافی لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہیں تھی، اس لیے ہم ریاستی سلامتی کو خطرے میں ڈالے بغیر اسے مزید بڑھا رہے ہیں۔‘‘
آج منگل کے روز شامی دارالحکومت دمشق میں ہزارہا لوگوں نے صدر بشار الاسد کے حق میں ریلی نکالی۔ ریلی کے شرکاء ملکی پرچم لہراتے ہوئے بشار الاسد کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ شام کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق لاکھوں افراد نے دمشق کے علاوہ ہومس میں بھی صدر کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں میں شرکت کی۔
اپنی حکومت کے خلاف تین ماہ سے جاری احتجاجی مظاہروں اور شورش کے سلسلے میں شامی صدر نے پیر کے روز ایک اہم خطاب کیا تھا۔ بشار الاسد نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مذاکرات نئے آئین کی راہ ہموار کر سکتے ہیں بلکہ اقتدار پر ان کی جماعت بعث کی گرفت بھی کمزور پڑ سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ بحران کے دوران اصلاحات کا عمل نہیں اپنائیں گے۔
دوسری طرف یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس پیر کو لکسمبرگ میں ہوا، جہاں بعض نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ بشار الاسد اصلاحات کا راستہ اپنائیں یا عہدہ چھوڑ دیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق وسط مارچ سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں اب تک 1300 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس تناظر میں یورپی رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی جانب سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ایسی کسی کارروائی کے لیے روس کی مخالفت کی مذمت بھی کی ہے۔
یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور کیتھرین ایشٹن نے بشار الاسد کی تقریر پر مایوسی ظاہر کی جبکہ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے اسے ناقابل اصلاح کہا: ’’ایسا لگتا ہے کہ وقت کے اشارے ان کی سمجھ میں نہیں آئے۔‘‘
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: کِشور مُصطفیٰ