شامی مظاہرین پرکریک ڈاؤن، امریکہ، فرانس اور جرمنی کی مذمت
19 اگست 2011جمعہ کو شامی سکیورٹی فورسز نے حکومت مخالف مظاہرین پر کریک ڈاؤن کرتے ہوئے مزید سولہ افراد کو ہلاک کر دیا۔ دمشق حکومت کی طرف سے مظاہرین پر اس نئے کریک ڈاؤن کے فوری بعد امریکی صدر باراک اوباما نے فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ٹیلی فون پر علیٰحدہ علیٰحدہ بات چیت کی۔
بعد ازاں وائٹ ہاؤس سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان تینوں رہنماؤں نے شامی صدر بشار الاسد کی طرف سے کریک ڈاؤن کی مذمت کی،’ رہنماؤں نے صدر بشار الاسد کی طرف سے شامی عوام کے خلاف جاری پر تشدد کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے‘۔ تینوں رہنماوں نے سلامتی کونسل میں شام مخالف اعلامیے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے مزید اقدامات کا اعادہ بھی کیا۔
جمعہ کو وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں مزید کہا گیا کہ بشار الاسد پر عالمی دباؤ بڑھانے کے لیے ان کی حکومت پر اضافی پابندیوں پر غور کیا جائے گا۔ شام کے معاملے پر امریکی صدر اوباما نے اپنے یورپی اتحادیوں سے ایسے وقت میں مشاورت کی ہے، جب واشنگٹن حکومت نے شامی صدر کو اقتدار سے الگ ہونے کے لیے براہ راست پیغام دیا ہے۔ رواں ہفتے ہی امریکی حکومت نے کہا تھا کہ اب شام میں بشار الاسد کی حکومت مشرق وسطیٰ کو ایک خطرناک سمت لے جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے پہلے جمعہ کو ہی دمشق کے نواح میں کم ازکم سولہ مظاہرین کو ہلاک کر دیا گیا۔ شام کے شہر حماہ میں سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے باوجود مظاہرین اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شام میں مارچ سے شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں کم ازکم 1649 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
تشدد کی اس تازہ حکومتی کارروائی کے بعد بظاہر شام کے حامی ملک روس نے بھی کہہ دیا ہے کہ دمشق حکومت ملک میں اصلاحات کے عمل کو یقینی بنائے۔
دوسری طرف شام کی سرکاری خبر ایجنسی SANA نے کہا ہے کہ ترک سرحد سے ملحقہ ادلب نامی علاقے میں سکیورٹی فورسز کے دو اہلکاروں کو ہلاک جبکہ آٹھ کو زخمی کر دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ دوما اور حمص میں بھی سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں دو سیکورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف