شام میں امریکی فوج سے تصادم بھی ہو سکتا ہے، صدر اسد کی تنبیہ
1 جون 2018روسی نشریاتی ادارے آر ٹی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بشارالاسد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی حکومت امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے ساتھ مذاکرات تو کر سکتی ہے لیکن اگر ضروری ہوا تو ان کے زیر قبضہ علاقوں کی واپسی کے لیے عسکری قوت کا استعمال بھی کیا جائے گا۔ اسد کے مطابق اگر امریکی فوجی اپنے حمایت یافتہ باغیوں کی مدد کے لیے پہنچیں گے، تب بھی دمشق حکومت عسکری کارروائی کرے گے۔
پوٹن کی اسد سے غیر متوقع ملاقات
’شامی مہاجرین کی جائیدادیں ضبط کی جا سکتی ہے‘
اسد کو بھاری قیمت چکانا ہو گی، صدر ٹرمپ
دوسری جانب واشنگٹن کا کہنا ہے کہ امریکا شامی فوج یا شامی سرزمین پر موجود ایرانی فوجیوں کے ساتھ براہ راست تصادم نہیں چاہتا۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ شام میں داعش کے خلاف برسرپیکار امریکی حمایت یافتہ جنگجوؤں کے دفاع کے لیے ’ضروری اور متناسب طاقت‘ کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار کا کہنا تھا، ’’امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد شام میں داعش کو شکست دینے کے اپنے مشن پر کاربند ہے اور شامی فوج، وہاں موجود ایرانی فوجیوں یا ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں کے ساتھ کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتا۔ تاہم، جیسا کہ ہم ماضی میں بھی کہہ چکے ہیں، اگر حملہ کیا گیا تو امریکی فوجیوں اور اتحادیوں کے دفاع کے لیے ضروری اور متناسب قوت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اندازوں کے مطابق شامی سرزمین پر امریکی فوج کے قریب دو سو خصوصی اہلکار موجود ہیں۔ یہ اہلکار شامی باغیوں کے گروہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کے فائٹرز کی معاونت اور مشاورت کر رہے ہیں۔ اس گروہ کی قیادت کردوں کی ایک ملیشیا کر رہی ہے۔
شام میں گزشتہ کئی برسوں سے جاری تنازعے میں روس اور ایران کی حمایت یافتہ اسد حکومت کو داعش اور باغیوں کے خلاف کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ اب تک اس جنگ میں لاکھوں انسان ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دیگر کئی لاکھ شامی شہری بیرون ممالک ہجرت پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔
ش ح / م م