شام میں مزید ہلاکتوں کے بعد ایران کی بشار الاسد پر تنقید
23 اکتوبر 2011خطے میں شامی صدر بشار الاسد کے اہم حامی ملک ایران نے دمشق حکومت کی پالیسیوں پر کھلے عام تنقید کی ہے۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے امریکی ٹیلی وژن سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شامی فورسز کی مظاہرین کے خلاف کارروائی کو ’قتل عام‘ کے مترداف قرار دیا۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا،’ ہم ہلاکتوں اور قتل عام کی مذمت کرتے ہیں، چاہے وہ سکیورٹی فورسز کا ہو یا عام لوگوں کا یا پھر اپوزیشن کا‘۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق محمود احمدی نژاد نے مزید کہا کہ شام میں قتل وغارت گری سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا،’ ہمارا شام کے بارے میں بہت سادہ سا فارمولا ہے کہ تمام فریقین مذاکرات کا راستہ اختیار کریں، تشدد مسائل کا حل نہیں اور اگر یہ جاری رہا تو ڈیڈ لاک کی صورتحال پیدا ہو جائے گی‘۔
شامی صدر کی پالیسیوں کے خلاف پہلی مرتبہ ایران نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔ دمشق حکومت کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس کا ایک اور اہم اتحادی ملک ترکی پہلے سے ہی اپنے مؤقف میں سختی پیدا کر چکا ہے۔
ایرانی صدر نے مزید کہا کہ شام میں بیرونی مداخلت سے معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ ناقدین کے بقول ایرانی صدر کا اشارہ امریکہ کی طرف تھا۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں عائد کرے تاکہ وہاں کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے عالمی دباؤ بڑھایا جا سکے۔ تاہم سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ممالک چین اور روس ایسی پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
دریں اثناء انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے مطابق ہفتہ کے دن سکیورٹی فورسز نے صدر بشار الاسد کے سیاسی مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے طاقت کا ناجائز استعمال کیا، جس کی وجہ سے مزید گیارہ افراد مارے گئے۔ اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق شام میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے دوران اب تک کم ازکم تین ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
برطانیہ میں انسانی حقوق کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ رواں ماہ کے دوران شام میں 114 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کم از کم 21 سو افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
شامی صدر کے مخالفین نے آج یعنی اتوار کو نئے مظاہروں کی کال دے رکھی ہے۔ شام میں اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ بشار الاسد کی حکومت بھی گر جائے گی۔ فرانس کے انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ ریسرچ سے وابستہ ایک تجزیہ نگار Jean-Yves Moisseron نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا ہے کہ لیبیا کے سابق رہنما قذافی کی موت کے بعد اب بشار الاسد پر دباؤ مزید بڑھ جائے گا۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف