شام کے خلاف سکیورٹی کونسل میں قرارداد ویٹو
5 اکتوبر 2011شام میں جمہوریت نوازوں کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کو بند کروانے کے لیے یورپی اقوام کی پیش کردہ قرارداد کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔ اس قرارداد کو روس اور چین نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے ویٹو کر دیا۔ قرارداد کے حق میں نو ووٹ ڈالے گئے۔ روس اور چین نے اس کی مخالفت میں ووٹ ڈالا اور اس طرح یہ قرارداد دم توڑ گئی۔ جنوبی افریقہ، بھارت، برازیل اور لبنان ووٹنگ کے عمل کے دوران شریک نہیں ہوئے۔
ووٹنگ کے بعد فرانس کے اقوام متحدہ میں سفیر جیرارا غُو (Gerard Araud) کا کہنا تھا کہ ایک سمجھوتے کے لیے کوششیں کی گئیں اور اس دوران چین اور روس سمیت غیر حاضر رہنے والے ملکوں کو بہت سی رعایتیں بھی دی گئیں لیکن مثبت پیش رفت ممکن نہیں ہو سکی۔ فرانسیسی سفارت کار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ویٹوکرنے والی قوتوں نے شام میں جائز حق کی خاطر جدوجہد کرنے والوں کی نفی کی ہے۔ ان کے مطابق قرارداد کے ویٹو کرنے سے شام میں انسانی حقوق کی پاسداری کا مطالبہ ختم نہیں کر دیا جائے گا۔
منگل کے روز ووٹنگ کے لیے پیش کی جانے والی قرارداد کو امریکہ کی پرزور حمایت حاصل تھی۔ امریکہ نے قرارداد کے منظور ہونے کا امکان بھی ظاہر کیا تھا۔ امریکہ نے قرارداد کے ویٹو کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اس قرارداد کے متن کو بظاہر یورپی یونین کی بھی حمایت حاصل تھی۔ سکیورٹی کونسل میں شام کے خلاف قرارداد برطانیہ، فرانس، جرمنی اور پرتگال کی جانب سے متعارف کروائی گئی۔
سکیورٹی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد میں شام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے ملک میں جمہوریت کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور تشدد کی پالیسی کو فوری طور پر ترک کر کے انسانی حقوق کی پاسداری کرے۔ اس قرارداد میں شام میں سیاسی عمل کو فروغ دینے کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ دونوں ملک یعنی روس اور چین سن 2008ء میں افریقی ملک زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے کے خلاف بھی پابندیوں کی قرارداد کو مشترکہ طور پر ویٹو کر چکے ہیں۔
سکیورٹی کونسل میں قرارداد پر ووٹنگ سے قبل متن کے حوالے سے روس کے نائب وزیر خارجہ Gennady Gatilov کا کہنا ہے کہ شام بارے جو قرارداد مغربی ممالک پیش کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اسے کسی طور قبول نہیں کیا جا سکتا۔ نئی قرارداد کے متن سے پابندیوں کے بارے میں براہ راست حوالے کو بھی حذف کردیا گیا تھا۔ یہ تبدیلی بھی شاید روسی مؤقف کے تناظر میں کی گئی تھی لیکن ایسی تمام کوششییں بے نتیجہ رہیں۔
دوسری جانب کینیڈا کے وزیر خارجہ جان بیئرڈ نے دارالحکومت اوٹاوا میں اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک شام سے تیل ایکسپورٹ پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ تیل کی تلاش میں کی جانے والی سرمایہ کاری کو بھی بند کر رہا ہے۔ کینیڈا کی حکومت نے شام کے صدر بشار الاسد کے قریبی ستائیس افراد پر سفر کی پابندیاں عائد کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ ان کے علاوہ بارہ بڑی کمپنیاں بھی اس پابندی میں شامل ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: حماد کیانی