شام میں اقتدار کی تبدیلی کب آئے گی
4 اکتوبر 2011دریں اثناء حکومتی مخالفین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان پرتشدد جھڑپیں جاری ہیں۔ شامی سکیورٹی فورسز نے ٹینکوں کی مدد سے شہر راستان کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے۔ شام میں اقتدار میں تبدیلی کب آئے گی اور ابھی تک جاری جھڑپوں میں مزید کتنے افراد مارے جائیں گے، فی الحال ان باتوں کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔
اسد حکومت کے تین ہزار مخالفین کے ہلاکت کے باوجود ابھی تک یہی تصور کیا جاتا ہے کہ کئی ماہ سے جاری مظاہرے مجموعی طور پر پرامن رہے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان مظاہروں میں مزید شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے اور اسد حکومت کے خاتمے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا جا رہا ہے۔
ابھی تک یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر شامی حکومت کے مخالفین کون ہیں؟ اپوزیشن مختلف حصوں میں تقسیم تھی۔ اس امر کا اندازہ لگانا مشکل ہو چکا تھا کہ اس تحریک کی اصل میں سربراہی کون کر رہا ہے؟ عرب، سنی، اسلام پسند، کرد، عیسائی، مقامی انقلابی یا پھر جلاوطن رہنما۔ تاہم اسی سوال کا جواب دینے کے لیے رواں ہفتے پیر کو شام کی ایک قومی کونسل تشکیل دی گئی ہے۔
اس کانفرنس میں شریک تمام سیاسی رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اسد حکومت کو اب اقتدار سے رخصت ہونا چاہیے۔ ان شرکاء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ لیبیا کی طرح کسی بھی غیر ملکی کارروائی کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس بارے میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر معین ربانی کا کہنا ہے، ’’غیر ملکی حملہ کوئی حل نہیں ہے اور یہ بات غیر ملکی بھی جانتے ہیں اور اپوزیشن بھی۔ مستقل حل کے لیے آخر کار شامی باشندوں کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔‘‘
شام میں اکثریت سنی مسلمانوں کی ہے جبکہ برسر اقتدار صدر بشارالاسد کا تعلق ملک میں موجود دس فیصد علوی فرقے سے ہے۔ ملک اور فوج کے زیادہ تر بڑے عہدے بھی اسی مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہی وہ نکتہ ہے جسے ’سیاسی بارود‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بھی خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد خانہ جنگی کا آغاز بھی ممکن ہے۔
لبنان کے ماہر اقتصادیات علی یاشوئی کا کہنا ہے دمشق حکومت کے خلاف معاشی پابندیوں کے بعد شام میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا شدید خدشہ ہے اور ایسے میں مظاہرین کی تعداد اور مطالبات میں کمی کی بجائے مزید اضافہ ہوگا۔ یاشوئی کے مطابق اسد حکومت اس وقت مظاہروں کی بجائے اقتصادی بدحالی سے زیادہ خوفزدہ ہے۔ ان کے مطابق مظاہرین اپنی منزل ضرور حاصل کریں گے لیکن اس میں ابھی وقت لگے لگا۔
رپورٹ: اولرش لائیڈ ہولڈ / امتیاز احمد
ادارت: عصمت جبیں