شمالی وزیرستان کے لاکھوں مہاجرین کی واپسی پندرہ مارچ سے
13 مارچ 2015ملکی دارالحکومت اسلام آباد سے آج جمعہ 13 مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ان قریب ایک ملین پاکستانی شہریوں کو افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن سے پہلے اپنے گھروں سے رخصت ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔ داخلی مہاجرت پر مجبور ان شہریوں کے اولین گروپ پرسوں اتوار سے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع ہو جائیں گے۔
سرحدی علاقوں اور ان سے متعلقہ امور کے پاکستانی وزیر عبدالقادر بلوچ نے آج نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ملکی فوج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز گزشتہ برس جون میں کیا تھا، جس کے باعث وہاں سے قریب دس لاکھ باشندے بے گھر ہوئے تھے۔
عبدالقادر بلوچ نے بتایا، ’’اتنے زیادہ باشندوں کی ان کے گھروں کو واپسی میں ظاہر ہے وقت لگے گا۔ لیکن جیسے جیسے حالات بہتر ہوتے جائیں گے، ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو واپس ان کے گھروں کو بھیجنا شروع کر دیں گے۔‘‘
اس پاکستانی وزیر نے کہا، ’’ہمیں داخلی مہاجرت کرنے والے کل قریب دو ملین شہریوں کو واپس ان کے آبائی علاقوں میں بھیجنا ہے۔ ان شہریوں کا تعلق شمالی وزیرستان سے بھی ہے اور دو دیگر قبائلی علاقوں جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی سے بھی۔‘‘
پاکستان میں مختصراﹰ فاٹا کہلانے والے وفاق کے زیر انتظام مجموعی طور پر چھ قبائلی علاقوں میں سے شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی ہی وہ علاقے ہیں جہاں مقامی طالبان اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے تھے۔ یہ تینوں قبائلی علاقے پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد سے ملتے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق خیبر ایجنسی اور جنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائیوں کا آغاز 2009ء میں ہوا تھا اور اب تک وہاں سے مہاجرت کرنے والے باشندوں کو محض چند مخصوص خطوں میں ہی واپسی کی اجازت دی گئی ہے۔
خیبر ایجنسی میں گزشتہ برس اُس سے پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ مسلح جھڑپیں دیکھنے میں آئی تھیں۔ پاکستان کے یہی وہ قبائلی علاقے ہیں جہاں سے عسکریت پسند زیادہ تر پاکستانی سکیورٹی دستوں اور افغانستان میں امریکا کی سربراہی میں فرائض انجام دینے والے دستوں پر مسلح حملے کرتے رہے ہیں۔