اسکولوں کو پشاور حملے کے ہلاک شدگان سے موسوم کرنے کا فیصلہ
6 مارچ 2015پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے جمعہ چھ مارچ کی شام ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی وزیر تعلیم عاطف خان کے بقول صوبے بھر میں مجموعی طور پر 107 اسکولوں کے نام بدل کر ان افراد کے ناموں پر رکھ دیے جائیں گے، جو 16 دسمبر 2014ء کے روز آرمی پبلک اسکول پر حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
یہ دہشت گردانہ حملہ پاکستانی طالبان کی کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ مسلح عسکریت پسندوں نے کیا تھا اور اس خونریز واقعے میں مجموعی طور پر 153 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثریت اس اسکول کے طلبہ کی تھی۔
اس حملے کے بعد سے پاکستان میں حکومت اور سکیورٹی فورسز کی طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی سوچ مزید پختہ ہوئی ہے اور خاص طور پر پاکستانی قبائلی علاقوں میں افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کے خلاف بھرپور فوجی آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔
اس بارے میں خیبر پختونخوا کے وزیر تعلیم عاطف خان نے بتایا، ’’پورے صوبے میں 107 اسکولوں کو اس حملے میں ہلاک ہونے والے طلبہ سے منسوب کر دیا جائے گا۔ ہم نہ تو کبھی ان طلبہ کو بھولیں گے اور نہ ہی ان کی قربانیوں کو۔‘‘
پشاور کے اس دہشت گردانہ حملے کی ذمے داری پاکستانی طالبان نے قبول کر لی تھی۔ اس حملے کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اللہ نے کہا تھا کہ یہ کارروائی پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی سکیورٹی فورسز کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح آپریشن شروع کیے جانے کے ردعمل میں کی گئی تھی۔
پشاور کے اس اسکول پر حملے میں مارے جانے والے ایک 15 سالہ طالب علم شیر شاہ کے والد محمد طفیل خٹک نے آج روئٹرز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے اس حملے میں اپنا بیٹا کھو دیا تھا۔ لیکن آج مجھے ایک اچھی خبر سننے کو ملی ہے۔‘‘
محمد طفیل خٹک کے مطابق ان کا آرمی پبلک اسکول میں زیر تعلیم بیٹا، جو دوسرے بہت سے طلبہ کے ساتھ اس دہشت گردی میں ہلاک ہوا، بڑا ہو کر صحافی بننا چاہتا تھا تاکہ اپنی تحریروں کے ذریعے مثبت انداز میں رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکے۔