شمالی کوریا: نئے ہتھیاروں کے مسلسل اتنے زیادہ تجربات کیوں؟
6 اکتوبر 2016اس بارے میں نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنے ایک مفصل تجزیے میں لکھا ہے کہ کمیونسٹ کوریا نے اپنے نوجوان حکمران کم جونگ اُن کی قیادت میں پچھلے دس مہینوں کے دوران بار بار بہت جدید اور عسکری حوالے سے غالباﹰ فیصلہ کن حیثیت کے حامل اپنے نئے ہتھیاروں کے جو ’کامیاب‘ تجربات کیے ہیں، وہ پیونگ یانگ کی ان کوششوں کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ اور جدید ترین ہتھیار جمع کرنے میں مصروف ہے۔
شمالی کوریا نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں اپنے نئے ہتھیاروں کے جو تجربات کیے ہیں، ان میں دو ایٹمی دھماکوں اور موبائل لانچر سے فائر کیے جانے والے متعدد میزائلوں کے علاوہ بہت طاقت ور راکٹ انجنوں اور کئی دیگر اہم میزائلوں کے تجربات بھی شامل ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کمیونسٹ کوریا، جو ماضی میں اپنی جنگی تیاریوں اور نئے ہتھیاروں کے حصول کے عمل میں کافی سست رفتار پروگرام پر عمل درآمد کرتا رہا ہے، اب اچانک بہت زیادہ مستعدی کیوں دکھانے لگا ہے؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شمالی کوریا کی سیاست اور اس کی جنگی بیان بازیوں پر قریب سے نظر رکھنے والے بہت سے ماہرین اور دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق اصل بات آٹھ نومبر کی ہے، جو خود شمالی کوریا کے لیے تو کوئی خاص دن نہیں لیکن امریکا میں اس سال ہونے والے صدارتی انتخابات کی تاریخ ہے۔
آٹھ نومبر کو امریکی عوام نئے ملکی صدر کا انتخاب کریں گے اور موجودہ صدر باراک اوباما کا جانشین یا تو ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ ہو سکتے ہیں یا پھر ڈیموکریٹک پارٹی کی خاتون امیدوار اور سابقہ خاتون اول ہلیری کلنٹن۔ لیکن شمالی کوریائی ہتھیاروں کے پروگرام کا ڈونلڈ ٹرمپ یا ہلیری کلنٹن سے کیا تعلق؟
ماہرین کے مطابق پیونگ یانگ کی اس حوالے سے جملہ کوششوں کا غیر اعلانیہ لیکن یقینی ہدف وہ نئی امریکی انتظامیہ ہے، جو اگلے برس کے اوائل سے اقتدار میں آئے گی۔
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں ان کی قیادت میں کام کرنے والی امریکا کی نیشنل سکیورٹی کونسل میں ایشیائی امور کے نگران عہدیدار کے فرائض انجام دینے والے اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے موجودہ پروفیسر وکٹر چا کے مطابق پیونگ یانگ چاہتا ہے کہ جیسے ہی وائٹ ہاؤس میں نئی ملکی انتظامیہ قدم رکھے، وہ اس پر یہ واضح کر دے کہ کمیونسٹ کوریا ’ایٹمی ہتھیاروں کی حامل ریاست‘ ہے۔
اس سلسلے میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سے ماہرین کی رائے میں یہ بات تاحال مبہم ہے کہ شمالی کوریا اپنی طرف سے آئندہ امریکی انتظامیہ پر جو کچھ بھی ’واضح‘ کرنا چاہتا ہے، اس کا درپردہ مقصد کیا ہے؟ یعنی مستقبل میں واشنگٹن کے ساتھ پیونگ یانگ کے ممکنہ مذاکرات میں کمیونسٹ کوریا کی پوزیشن بہتر رہے یا پھر یہ تاثر دینا کہ ’بہتر ہو گا کہ آپ ہمارے منہ نہ لگیں‘۔