شیری رحمٰن واشنگٹن میں پاکستان کی نئی سفیر متعین
23 نومبر 2011شیری رحمٰن کا اصل نام شیر بانو رحمٰن ہے ۔ وہ اکیس دسمبر 1960ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ شیری رحمٰن نے ملکی اور غیر ملکی تعلیمی اداروں سے آرٹ، تاریخ اور پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے پہلے 20 سال تک بطور صحافی مختلف اداروں میں کام کیا۔ وہ پہلی پاکستانی خاتون صحافی ہیں، جنہیں برطانوی ہاؤس آف لارڈز کی طرف سے آزادی صحافت کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
شیری رحمٰن 2002 سے 2007ء تک اور پھر 2008ء میں خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر پیپلز پارٹی کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 31 مارچ 2008ء کو انہیں وفاقی وزیر اطلاعات بنایا گیا لیکن ایک سال بعد حکومت سے اختلافات کی بنیاد پر انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہیں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے لیے ایک پارلیمانی بل پیش کرنے پر سخت گیر مذہبی حلقوں کی جانب سے جان سے مار دیے جانے کی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں۔
پاکستان کے معروف صحافی طلعت حسین نے شیری رحمٰن کے بطور سفیر نامزد کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس میں میرٹ زیادہ نظر آتا ہے کیونکہ شیری رحمٰن پاکستان کے نظام اور سیاست کو بہتر سمجھتی ہیں اور پچھلے چند سالوں سے وہ خارجہ امور پر بھی بہت توجہ دے رہی تھیں۔ ان کا اپنا ایک ادارہ ہے، جناح انسٹیٹیوٹ کے نام سے۔ بھارت کے ساتھ بڑے پیمانے پر وہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں بھی شامل ہیں اور بنکاک میں بات چیت کے کئی دور بھی کروا چکی ہیں۔‘‘
امریکہ میں حسین حقانی کی جانشین کے طور پر شیری رحمٰن کی تقرری پر تبصرہ کرتے ہوئے طلعت حسین نے کہا، ’’شیری رحمٰن کے تعلقات جی ایچ کیو کے ساتھ بھی بہتر ہیں۔ وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور جنرل ہیڈ کوارٹرز میں لیکچرز بھی دیتی رہتی ہیں۔‘‘
ادھر بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ شیری رحمٰن کی جگہ اگر کسی پیشہ ور سفارت کار کو امریکہ میں پاکستان کا نیا سفیر نامزد کیا جاتا تو وہ زیادہ بہتر فیصلہ ہوتا۔ تاہم مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی ایاز امیر کا اس بارے میں کہنا ہے، ’’ایسے دارالحکومتوں میں کیریئر ڈپلومیٹ ہونے چاہیئں۔ جیسا کہ بھارت بھی کرتا ہے۔ وہ سیاسی تعیناتیاں نہیں کرتے۔ لیکن ہمارے جو پیشہ ور سفارت کار ہیں، وہ اتنے متاثر کن نہیں رہے۔‘‘
عوامی مسلم لیگ کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے اس بارے میں کہا، ’’میں نہیں سمجھتا کہ شیری رحمٰن کی تقرری پر کسی کو اعتراض ہوگا، ان حلقوں میں جہاں حسین حقانی کے معاملے میں شدید اختلاف پایا جاتا تھا۔ پی پی پی کے مفاد کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو یہ کوئی بری چوائس نہیں۔ وہ رائٹر بھی رہی ہیں، انفارمیشن منسٹر بھی رہی ہیں۔ سیاسی تعیناتی کے لیے ان سے بہتر کوئی چوائس نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘
’میمو گیٹ‘ کے بارے میں آئینی درخواست
حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن نے بدھ کے روز میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کر دی۔ سینئر وکیل فخر الدین جی ابراہیم کے ذریعے دائر کی گئی اس درخواست میں صدر، وفاق پاکستان، آرمی چیف، حسین حقانی، منصور اعجاز، سیکرٹری خارجہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کو فریق بنایا گیا ہے۔ اس درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اس فوری اہمیت کے معاملے کے لیے عدالت اپنا کردار ادا کرے۔
’میمو گیٹ‘ تحقیقات
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ روز حسین حقانی سے استعفیٰ طلب کرتے ہوئے میمو گیٹ اسکینڈل کی شفاف اور غیر متعصبانہ تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔ تاہم سرکاری طور پر ابھی تک یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ تحقیقات کس نوعیت کی ہوں گی اور یہ عمل کون، کب شروع کرے گا۔ البتہ مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش میں ہیں کہ ڈی جی جوائنٹ سٹاف ہیڈ کوارٹرز لیفٹیننٹ جنرل آصف اس معاملے کی تحقیقات کے لیے امریکہ جائیں گے۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد آصف ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کے طور پر بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ وہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے ملٹری اتاشی سے بریفنگ لینے کے علاوہ امریکہ کے عسکری حکام سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
حقانی کی سکیورٹی سخت
بطور سفیر مستعفی ہونے کے بعد حسین حقانی کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ حسین حقانی اور ان کی اہلیہ فرح ناز اصفہانی نے میمو گیٹ اسکینڈل کا انکشاف کرنے والے پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کا اعلان کر رکھا ہے ۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ قانونی چارہ جوئی کب شروع کی جائے گی۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں