صومالیہ قحط کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے، اقوام متحدہ
13 اپریل 2022صومالیہ یوں تک اکثر خشک سالی کا شکار رہتا ہے تاہم اس وقت یہ رواں دہائی کی بدترین خشک سالی سے گزر رہا ہے۔اس کے پڑوسی ممالک ایتھوپیا اور کینیا بھی متاثر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں ورلڈ فوڈ پروگرام، فوڈ اینڈ ایگری کلچر ایجنسی (ایف اے او)، انسانی امدادی سرگرمیوں میں شامل ایجنسی او سی ایچ اے اور یونیسیف کے عہدیداروں نے منگل کے روز ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے دستیاب امداد ختم ہوتی جارہی ہیں اور بہت سے متاثرہ صومالیوں میں اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کی سکت باقی نہیں رہ گئی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے صومالیہ کے نمائندے الخضر دالوم نے کہا،"حقیقت میں صورت حال ایسی ہوگئی ہے کہ ہم کسی بھوکے سے کھانا لے کر بھوک مری کی دہلیز پر پہنچ جانے والے لوگوں کوکھلانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔لاکھو ں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔"
قحط زدہ علاقے
اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اس سال اپریل سے جون کے دوران مشرقی افریقہ میں بارش نہیں ہونے کی پیشن گوئی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اناج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نیز یوکرین میں تصادم کی وجہ سے اناج کی سپلائی متاثر ہوجانے کے سبب اناج کی قلت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صومالیہ کے چھ خطوں کو قحط زدہ علاقوں کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔
انٹیگریٹیڈ فوڈ سکیورٹی فیس کلاسیفیکیشن نامی ادارے کی جانب سے پیش کردہ ایک نئی رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً 40 فیصد یعنی لگ بھگ 60لاکھ افراد خوراک کی انتہائی شدید قلت سے دوچار ہیں۔
امدادی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ قحط کی وجہ سے بچے اس کا سب سے زیادہ شکار ہوں گے۔ اس سال ہی تقریباً 14 لاکھ بچوں کو انتہائی قلت تغذیہ کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ ان میں سے ایک چوتھائی کی بھوک کی وجہ سے ہلاکت ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق صومالیہ میں قحط کے بحران پر قابو پانے کے لیے ضروری 1.5 ارب ڈالر کی رقم کا اب تک صرف 4.4فیصد ہی حاصل ہوسکا ہے۔
صومالیہ میں سن 2011 میں خشک سالی کے نتیجے میں قحط اور تصادم کی وجہ سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
عالمی مسائل بھی خوراک کی بڑھتی عدم سلامتی کی وجہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے پیداشدہ صورت حال نیز یوکرین کی جنگ نے بھی دنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کردیا ہے جس سے غریب اور درآمد پر منحصر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے جرمنی آفس کے ڈائریکٹر مارٹن فریک نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سب صحارا اور شمالی افریقی ممالک نیز مشرقی وسطی کے ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
فریک کا کہنا تھا،"عام لفظوں میں کہا جائے تو یہ کہ وہ بیشتر بنیادی خوراک خریدنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔" انہوں نے بتایا کہ تنظیم کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ "اس سے ایسے غریب ترین کنبے متاثر ہورہے ہیں جنہیں اپنی مجموعی آمدنی کا 70 سے 80 فیصد تک روٹی پر خرچ کرنا پڑجاتا ہے۔"
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)