صومالیہ کے فوجیوں کی تربیت، یورپی یونین کا فیصلہ
22 نومبر 2009صوماليہ کے دارالحکومت موغا ديشو ميں فائرنگ کی آوازيں،مؤذن کی اذان کی طرح روز کا معمول ہيں۔ کئی برسوں سے يہاں عبوری حکومت اور زير زمين اسلامی شدت پسندوں کے درميان لڑائی جاری ہے۔ اس صورتحال میں افريقی يونين کے تقريباً پانچ ہزار فوجی بے بس نظر آتے ہیں۔ عالمی غذائی پروگرام کے پيٹر سمردون کہتے ہیں کہ موغاديشو کے شہری ان حالات سے بہت متاثر ہو رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں صوماليہ کی صورتحال کئی برسوں سے خراب ہے اور وہ مزید خراب ہوتی جارہی ہے۔ سخت لڑائی کی وجہ سے پچھلے سال ايک ملين سے زيادہ افراد موغاديشو سے چلے گئے۔ لڑائی کی وجہ سے وہاں امداد بھيجنا تقريباً ناممکن ہے۔ صوماليہ کا بحران ايک عرصہ ہوئے ہمسايہ ممالک کو بھی اپنی لپيٹ ميں لے چکا ہے۔ ايتھوپیا، اريٹيرنا اورجبوتی ميں جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے کيونکہ حکومتيں خانہ جنگی ميں ملوث مختلف فريقوں کی حمايت کررہے ہيں۔ کينيا کے وزير اعظم رائلا اوڈنگا کو صومالی شدت پسندوں کے حملوں کا خطرہ ہے جو پہلے کی طرح اب بھی کسی رکاوٹ کے بغير سرحد عبور کرسکتے ہيں۔ اوڈنگا کہتے ہیں کہ صوماليہ ميں عدم استحکام کا کينيا کی سلامتی پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ صوماليہ کے مہاجرين ہمارے ملک میں آ رہے ہيں اور بحری قذاقی بھی ہماری اقتصاديت کے لئے ايک بڑا مسئلہ ہے۔ يہ بالکل واضح ہے کہ صوماليہ کا بحران بين الاقوامی مداخلت کا تقاضہ کرتا ہے۔
صوماليہ کی اپنی کوئی فوج نہيں اور اس کی عبوری حکومت کی مدد کے لئے فوج کی تربيت سب سے اہم قدم ہے۔ يورپی يونين کی مدد سے ايک سال کے دوران يوگینڈا ميں صوماليہ کے دوہزار فوجيوں اور سیکيورٹی کے عملے کو تربيت دی جائے گی۔
ليکن ابھی اس سلسلے ميں کئی خدشات پائے جاتے ہيں، مثلاً يہ کہ يورپی تربيت يافتہ فوجی شدت پسند اسلامی گروپوں اور دوسرے باغيوں سے مل سکتے ہيں۔ امريکی رکن کانگريس پين کا کہنا ہے کہ صوماليہ ميں کئی برسوں سے کوئی فعال حکومت نہيں ہے اور ايک فعال رياست کے قيام کی راہ ميں بہت سی مشکلات ہيں۔
صوماليہ ميں شيخ شريف احمد کی حکومت اپنی بقاء کی جنگ ميں مصروف ہے۔کہا جاتا ہے کہ موغاديشو ميں صرف ايک دو سڑکيں ہی ہیں، جو صدرکے قبضے ميں ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: عدنان اسحاق