طالبان کا مبینہ اتحاد، تحریک طالبان پاکستان کے داخلی اختلافات
4 جنوری 2012ذرائع کے مطابق پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کی مرکزی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود اور اس کے نائب ولی الرحمٰن محسود ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے ایک کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’آپ کو جلد ہی یہ خبر مل سکتی ہے کہ ان میں سے ایک نے دوسرے کا کام تمام کر دیا ہے، تاہم بعض کمانڈروں اور مشترکہ دوستوں کی جانب سے دونوں کے درمیان اختلافات ختم کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔‘‘
تحریک طالبان پاکستان کے ان دو کلیدی رہنماؤں کے درمیان اختلافات کا آغاز اگست 2009ء میں تحریک کے اس وقت کے سربراہ بیت اللہ محسود کی جنوبی وزیرستان ایجنسی میں ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اس کے جانشین کا انتخاب کرنے کے لیے طالبان کی شورٰی کا اجلاس ہوا تھا جس میں حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمٰن کے درمیان بحث و تکرار کے بعد فائرنگ شروع ہو گئی تھی اور ولی الرحمٰن نے حکیم اللہ محسود کو مبینہ طور پر گولی مار کر زخمی کر دیا تھا۔
تاہم روئٹرز کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں ولی الرحمٰن نے ان اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں۔‘‘
طالبان ذرائع کے مطابق ولی الرحمٰن نے اپنے جنگجوؤں کو حکیم اللہ محسود کو ہلاک کرنے کا حکم دے رکھا ہے کیونکہ اسے القاعدہ اور عرب جنگجوؤں سے زیادہ قریب تصور کیا جاتا ہے۔
ولی الرحمٰن کا حکیم اللہ محسود پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے پاکستانی طالبان، افغان باغیوں اور پاکستانی حکومت کے درمیان صلح صفائی کرانے کی کوششیں کرنے والے پاکستانی خفیہ ادارے کے ایک سابق اہلکار کو قتل کرنے کے لیے بھارت سے رقم لی تھی۔
اس کے علاوہ حکیم اللہ محسود کے جنوبی وزیرستان کے عسکریت پسند کمانڈر مولوی نذیر اور شمالی وزیرستان کے حافظ گل بہادر سے بھی دیرینہ تنازعات چلے آ رہے ہیں۔
محسود کے عسکریت پسندوں کی کرم ایجنسی میں تحریک طالبان پاکستان کی علاقائی شاخ کے سابق سربراہ فضل سعید حقانی کے لشکر سے بھی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
افغانستان کے حقانی نیٹ ورک سے قریبی رابطہ رکھنے والے فضل سعید حقانی نے گزشتہ سال تحریک طالبان پاکستان سے راہیں جدا کر لی تھیں۔
تحریک طالبان پاکستان میں انتشار افغان طالبان اور القاعدہ کی افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی فورسز کے خلاف لڑائی کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے۔ رواں ہفتے شمالی وزیرستان میں تقسیم کیے جانے والے ایک پمفلٹ میں طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کے لیے ایک شورٰی کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا۔ پمفلٹ کے مطابق ’’پانچ اراکین پر مشتمل ’شورٰی مراقبہ‘ اسلامی امارات افغانستان کی تجویز پر قائم کی گئی ہے اور وہ مجاہدین کے مختلف دھڑوں کے مابین اختلافات کو حل کرائے گی‘‘۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’غیر قانونی ہلاکتوں‘ اور اغوا برائے تاوان میں ملوث عسکریت پسندوں کو شرعی سزائیں دی جائیں گی۔
2007 ء میں قائم ہونے والی تحریک طالبان پاکستان مختلف عسکریت پسند دھڑوں کی ایک مرکزی تنظیم ہے تاہم اپنے اہداف کے حوالے سے بھی اس میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس کے کچھ دھڑے پاکستانی ریاست کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں جبکہ دیگر کا ارتکاز افغانستان میں برسر پیکار اتحادی فورسز پر ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی