طالبان نے قطر میں رابطہ دفتر کھولنے کی تصدیق کر دی
3 جنوری 2012’وائس آف جہاد‘ نامی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق اس سلسلے میں ایک ’ابتدائی معاہدہ‘ کیا گیا ہے اور یہ اقدام امریکہ کے ساتھ جاری امن مذاکرات کا ایک حصہ ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ’افغانستان میں مضبوط موجودگی کے باعث ہم بیرون ملک اپنا سیاسی دفتر کھولنے کی پوزیشن میں ہیں‘۔ تاہم طالبان کی طرف سے ایک مرتبہ پھر جنگ کے اختتام پر تمام غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کا مطالبہ دہرایا گیا ہے۔
مغربی دنیا اور افغان حکام کی طرف سے طالبان کے اس اقدام کو امن منصوبے اور دس سالہ جنگ کے اختتام کی طرف ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے مختلف میڈیا اداروں کو بھیجی جانے والی ایک ای میل میں کہا گیا ہے، ’ہم بیرون ملک سیاسی دفاتر کے قیام کے لیے اب بالکل تیار ہیں اور اسی معاملے پر ہماری بین الاقوامی برادری سے مفاہمت بھی پائی جاتی ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ کے اواخر میں افغان امن کونسل کا کہنا تھا کہ قطر میں طالبان کے رابطہ دفتر کو تسلیم تو کر لیا جائے گا لیکن یہ بہتر تھا کہ یہ آفس سعودی عرب یا ترکی میں قائم کیا جاتا۔ کونسل نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات میں ان کی رضا مندی کے بغیر کسی بھی بیرونی طاقت کو شامل نہ کیا جائے۔
گزشتہ ماہ ایک اہم امریکی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا تھا کہ طالبان کے ساتھ 10 ماہ سے جاری مذاکرات ایک اہم موڑ پر پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ آیا کوئی پیش رفت ممکن ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق اس تیز رفتار سفارت کاری کے نتیجے میں واشنگٹن حکومت کئی اعلیٰ سطحی طالبان قیدیوں کو گوانتاناموبے سے نکال کر افغان حکومت کے حوالے کرنے کا بھی سوچ رہی ہے۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اپنے بیان میں امریکہ سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی