طالبان کی طرف سے ’آپریشن بدر‘ کے آغاز کی دھمکی
30 اپریل 2011طالبان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ آئندہ دنوں میں وہ افغانستان متعینہ غیر ملکی فورسز، افغانستان کے سلامتی کے اداروں اور حکومتی اہلکاروں پر ملک گیر سطح پر دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تاہم سخت گیر موقف رکھنے والے ان انتہا پسندوں نے افغان عوام کو سرکاری اجتماعات، حکومتی مراکز اور فوجی اڈوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے، کیونکہ ان کے مطابق انہی مقامات کو حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا۔
طالبان کی طرف سے اس بیان کے سامنے آنے سے ایک روز قبل یعنی گزشتہ روز ہی مغربی سفارتکاروں اور سینیئر فوجی اہلکاروں نے عسکریت پسندوں کے نئے حملوں سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ آئندہ ہفتے باغیوں کی طرف سے حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرات محسوس کر رہے ہیں۔
گزشتہ روز جمعہ کو سینیئر ملٹری حکام نے کہا تھا کہ ایک تازہ ترین خفیہ رپورٹ سے یہ اشارہ ملا ہے کہ طالبان کی طرف سے حملوں کی منصوبہ بندی کی پشت پناہی القاعدہ سے تعلق رکھنے والا حقانی نیٹ ورک کر رہا ہے اور اس پلان میں خُود کُش بم حملے بھی شامل ہوں گے۔
افغانستان متعینہ غیر مکی فوج کے دو کمانڈروں نے کہا ہے، وہ یہ پیش بینی کر رہے ہیں کہ طالبان کے منصوبے کے تحت حملوں میں شدت اور اضافے کا سلسلہ تقریباً ایک ہفتہ جاری رہے گا۔
گزشتہ برس امریکہ کی طرف سے 30 ہزار اضافی امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجنے کے بعد سے واشنگٹن اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی قیادت میں افغانستان متعینہ بین الاقوامی آئی سیف فورسز بغاوت اورطالبان کی سرگرمیوں کو کچلنے میں کامیابی حاصل کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔
اُدھر طالبان نے کہا ہے کہ ’ آپریشن بدر‘ کا اہم ترین ہدف غیر ملکی فورسز، صدر حامد کرزئی کی حکومت کے چوٹی کے اہلکار، کابینہ کے اراکین اور پالیسی سازوں سمیت نیٹو کی سرپرستی میں کام کرنے والی ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے سربراہان ہوں گے۔
طالبان کے تازہ ترین بیان میں افغان شہریوں کو سرکاری عمارتوں، اہم مراکز اور ’دشمنوں کے قافلوں‘ سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ انہیں اُن کے خلاف کیے جانے والے مجاہدین کے حملوں سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال یعنی 2010 ء کے دوران افغانستان میں 2001 ء میں امریکہ کے حملے اور افغانستان سے طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک ہونے والی شہری اور فوجی ہلاکتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوا تھا۔
طالبان کی طرف سے جارحانہ حملوں کی نئی دھمکی اور افغانستان متعینہ غیر ملکی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کی اس بارے میں پیش بینی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب گزشتہ روز یعنی جمعرات کو صدر باراک اوباما نے لیون پینیٹا کی جگہ سی آئی اے کا نیا چیف اور پینیٹا کو امریکہ کا نیا وزیر دفاع نامزد کیا اور افغانستان میں امریکی افواج کے سابق سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو سی آئی اے کے نئے سربراہ کی ذمہ داریاں سونپنے اور امریکی سینٹرل کمانڈ کے نائب سربراہ لیفٹیننٹ جنرل جان ایلن کو افغانستان میں امریکی افواج کے نئے سربراہ کی حیثیت سے نامزد کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔
جنرل ڈیوڈ پیٹریاس امریکہ کی نئی افغانستان اسٹریٹیجی کے معمار ہیں۔ سی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے اُن سے یہی امید کی جا رہی ہے کہ وہ پاکستان میں جاری سی آئی اے کے پوشیدہ آپریشنوں اور ڈرون حملوں کی مہم کو آگے بڑھائیں گے اور وہاں قائم عسکریت پسندوں کے مبینہ محفوظ ٹھکانوں پر حملوں کے سلسلے میں بھی دباؤ ڈالیں گے۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے/ کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی