عراق ميں مہاجرين جہاديوں اور فوجيوں کے بيچ پھنسے ہوئے
29 جون 2016’’يا تو ہميں اسلامک اسٹيٹ کا کوئی حامی مار ڈالتا يا پھر ہم فوج کی بمباری کا نشانہ بن جاتے۔‘‘ مشرق وسطیٰ ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ کے زير کنٹرول عراق کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل سے نقل مکانی کرنے کی وجہ تين بچوں کی ايک ماں نے کچھ يوں بيان کی۔ وہ ايسا کرنے والی تنہا نہيں بلکہ اب تک موصل کے لگ بھگ ايک لاکھ شہری يہ قدم اٹھا چکے ہيں۔
موصل کی آبادی کئی ملين ہے اور يہ شہر گزشتہ قريب دو برس سے اسلامک اسٹيٹ کے قبضے ميں ہے۔ موصل پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے ليے رواں برس مارچ سے عراقی فوج نے شہر کے گرد گھيرا تنگ کرنا شروع کر رکھا ہے۔ آنے والے دنوں ميں سخت لڑائی کے خوف سے مزيد افراد شہر سے نقل مکانی کر رہے ہيں۔ ايک نوجوان فوجی اہلکار نے اس صورتحال کو کچھ ان الفاظ ميں بيان کيا، ’’پہلے لوگ داعش سے بھاگ رہے تھے ليکن اب يہ لوگ فوج سے فرار ہو رہے ہيں۔‘‘
امکان يہی ہے کہ اس شمالی عراقی شہر کو دہشت گردوں کی گرفت سے نکالنے کے ليے لڑائی بالخصوص سخت ہو گی۔ دونوں ہی فريقوں کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، عراقی فوج ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر پر کنٹرول چاہتی ہے تو اسلامک اسٹيٹ بھی اپنے آخری گڑھ کو بچانے کے ليے پورا زور لگا دے گی۔ ايک امريکی فوجی ترجمان نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ موصل اس ليے بھی اہميت کا حامل ہے کيونکہ اگر يہ واقعی اسلامک اسٹيٹ کی خلافت کا مرکز ہے، تو پھر تو دہشت گرد اسے بچانے کے ليے ہر ممکن کوشش کريں گے۔
دوسری جانب موصل سے فرار ہونے والے مہاجرين عراقی فوج سے بھی خوف زدہ ہيں۔ عمر رسیدہ ایک شخصنے اپنی داستان بيان کرتے ہوئے بتاتا ہے، ’’فوجی اہلکاروں نے ميرا فون اور ميرے پاس موجود رقم لے لی ہے۔ انہوں نے تو مجھے جان سے مارنے کی دھمکی تک دی۔‘‘ مہاجرين کے پاس فوج کے ہاتھوں بد سلوکی کی ايسی بہت سی کہانياں ہيں جن کی وجہ وہ عراقی فوج کی حاليہ تاريخ بتاتے ہيں۔ فوج کو پہلے سابق رہنما صدام حسين کے خوف کے دور کا سامنا رہا اور پھر کچھ سالوں تک خانہ جنگی جاری رہی۔ بہت سے شيعہ فوجی اہلکار اپنے سنی ساتھيوں کو خراب نگاہ سے ديکھتے ہيں۔
موصل سے اب تک تقريباً ايک لاکھ مہاجرين فرار ہو چکے ہيں تاہم مبصرين کا ماننا ہے کہ يہ سلسلہ تو ابھی شروع ہی ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق يہ بھی ممکن ہے کہ تقريباً ايک ملين افراد موصل سے فرار ہوں، جو شہر کی مجموعی آبادی کا دو تہائی حصہ بنتا ہے۔ اقوام متحدہ کی عراق کے ليے خصوصی نمائندہ اور انسانی بنيادوں پر امداد سے متعلق کاموں کی کوآرڈينيٹر ليزے گراندے کہتی ہيں، ’’ہم نہيں جانتے کہ آيا ہم اس مالياتی اور انتظامی چيلنج سے نمٹ پائيں گے۔‘‘ ان کے بقول وہ شديد تشويش کا شکار ہيں کيونکہ جنگ کی تباہ کاريوں کے بعد لوگ کئی ماہ اور ہو سکتا ہے کہ سالوں تک اپنے علاقوں اور گھروں کو واپس نہ جا سکيں۔