’اب فلوجہ آزاد ہے‘: عراقی فوج کا اعلان
26 جون 2016عراقی صوبے الانبار کے بڑے شہر فلوجہ پر قبضے کی عسکری مہم کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عبدالوہاب السیدی نے سرکاری ٹیلی وژن کو بتایا ہے کہ ملکی فوج نے فلوجہ شہر پر قابض انتہا پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو پوری طرح شکست دے کر پسپا کر دیا ہے۔ السیدی نے یہ بھی کہا کہ عراقی عوام کے لیے یہ خوش خبری ہے کہ اب یہ شہر ایک مرتبہ پھر بغداد حکومت کی عمل داری میں آ گیا ہے اور فلوجہ کی جنگ بھی ختم ہو گئی ہے۔ جنرل السیدی نے فلوجہ شہر کے وسطی علاقے الجولان کو فتح کرنے کے بعد سرکاری ٹیلی وژن پر انٹرویو دیتے ہوئے اپنی فتح کا اعلان کیا۔
عراقی فوج نے بتایا ہے کہ فلوجہ پر قبضے کے مشن کے دوران عسکریت پسند جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے اٹھارہ سو کے جنگ جو مارے گئے ہیں۔ عراقی فوج ایک ہفتہ قبل فلوجہ شہر میں داخل ہوئی تھی۔ العراقیہ ٹیلی ورژن نے بھی اپنے نشریے میں بتایا کہ فلوجہ شہر پر عراقی حکومت کی اتھارٹی کو بہ حال کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے بھی فلوجہ شہر کی بازیابی کے اعلان کی تصدیق کی ہے۔ عراق کے سیاسی مبصرین کے مطابق یہ ایک بڑی فتح ہے اور اِس سے عراقی فوج کو موصل شہر کی بازیابی کی مہم شروع کرنے میں ہمت حاصل ہو گی۔
فلوجہ کا سنی اکثریتی آبادی والا شہر ملکی دارالحکومت بغداد سے پچاس کلومیٹر کی دوری پر مغربی سمت میں واقع ہے۔ اِس پر سن 2014 میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے مقامی سنی انتہا پسندوں کی مدد سے قبضہ کیا تھا۔ اِس قبضے کے بعد اِس انتہائی انتہا پسند تنظیم نے فلوجہ کے گرد و نواح کے کئی علاقوں پر بھی پیش قدمی کرتے ہوئے کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔
عراق کے بڑے صوبے الانبار کا مرکزی اور بڑا شہر فلوجہ ہے۔ اِس صوبے کا صدر مقام رمادی ہے اور اُس پر بھی عراقی فوج نے چند ہفتے قبل اپنا قبضہ مکمل کیا تھا۔ جہادی تنظیم ابھی بھی شمالی عراق کے کئی علاقوں پر قابض ہے اور اِس میں خاص طور پر دوسرا بڑا شہر موصل شامل ہے۔
فلوجہ کے ہزاروں افراد کی ’اسکریننگ‘ جاری
عراقی فوج نے بتایا ہے کہ فلوجہ شہر کے بیس ہزار افراد کو روک کر اُن سے پوچھ گچھ کا عمل شروع ہے۔ فوج کے مطابق یہ اِس لیے ضروری ہے کہ کہیں اِن میں داعش کے جہادی تو شامل نہیں ہیں۔ یہ ہزاروں افراد فلوجہ شہر میں عراقی فوج کے داخل ہونے کے بعد نکلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کئی افراد نے فوج پر الزام لگایا ہے کہ پوچھ گچھ کے دوران انہیں زد وکوب بھی کیا گیا۔ اب تک گیارہ ہزار سے زائد افراد کو آزاد کر دیا گیا ہے۔ سات ہزار سے زائد افراد کی چھان بین باقی ہے جب کہ 21 سو سے زائد مشتبہ افراد باقاعدہ طور پر حراست میں ہیں۔