عرب دنیا کا شام کے ساتھ تجارتی روابط ختم کرنے کا فیصلہ
28 نومبر 2011قاہرہ میں منقعدہ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے اثاثہ جات کو منجمد کرنے اور شامی اعلٰی عہدیداروں کی جانب سے عرب ریاستوں کے سفر پر بھی پابندی عائد کرنے پراتفاق کیا گیا۔ شام میں بد امنی کی وجہ سے اقتصادی صورتحال پہلے ہی سےشدید مشکات سے دوچار ہے اور اس سے سیاحت کا شعبہ سب سے بری طرح متاثر ہوا ہے، جو کہ بیرونی محصولات کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری اور عالمی سطح پر تجارتی تعلقات میں عدم تعاون کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے بھی خام تیل کی درآمد پر پابندی کے بعد شام کی اس شعبے میں ماہانہ 400 ملین ڈالرز کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شام کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ یہ چیز بھی واضح کی گئی کہ ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے گا، جن سے عام شامی افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔
"اکنامک انٹیلی جنس یونٹ" سے وابستہ ماہر اقتصادیات کرس فلپس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ شام کے مرکزی بینک کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کرنے سے شامی تاجروں کو برآمدات اور درآمدات کے شعبے میں مشکل صورتحال پیش آ سکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ لبنان اور عراق کی جانب سے ان پابندیوں پر عمل درآمد مشکل نظر آتا ہے۔
لبنان کے شام کے ساتھ دیرینہ سیاسی اور تجارتی تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عراق کی طرح لبنان نے بھی شام پر پابندیوں کی مخالفت کی تھی۔ بغداد حکومت نے اجلاس سے قبل ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ شام پر کسی قسم کی بھی پابندیوں کی حمایت نہیں کرے گی۔ لبنان کے وزیر خارجہ عدنان منصور نے گزشتہ ہفتےگفتگو کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ بیروت کا کوئی بھی فعل شام کے خلاف نہیں جائے گا۔ اس کے برعکس وزیراعظم نجیب متقی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت عرب لیگ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرے گی۔
اردن کے ایک بینکار کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ابھی تک پوری صورتحال واضح نہیں ہوئی ہے لیکن ان اقدامات سے شام کے ساتھ کاروباری روابط رکھنا بے حد دشوار ہو جائیں گے۔ سعودی عرب کے بھی ایک معروف بینک نے اپنے حصص شام اور لبنان کے بینکوں کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس حوالے سے موقف اپنایا ہے کہ شام کے مالیاتی بحران کے باعث شراکت داری کا سلسلہ مزید نہیں چل سکتا۔
اردن کے شاہ عبداللہ عرب دنیا کے وہ واحد رہنما ہیں، جنہوں نے شامی صدر بشار الاسد پر اپنا عہدہ چھوڑنے پر زور دیا ہے۔ اس حوالے سے اردن کے ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ اقتصادی پابندیوں کا مقصد دراصل شامی صدر پر دباؤ بڑھانا ہے۔ ترکی کے ساتھ شام کی تجارت کا سالانہ حجم 2.5 بلین ڈالر بنتا ہے تاہم ترکی کے وزیر خارجہ احمد داؤد اوگلو کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ انقرہ حکومت دیگر عرب ممالک کے فیصلے کی پاسداری کرے گی۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: امجد علی