1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کا سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کتنا قابل عمل؟

عثمان چیمہ
6 دسمبر 2024

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی نے مطالبات پورے نہ ہونے پر سول نافرمانی اور بائیکاٹ کی مہم کا اعلان کیا ہے۔ تاہم بعض سیاسی تجزیہ کار پہلی کی طرح اس مہم کے موثر ہونے سے متعلق بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4nr5m
عمران خان کے مطابق ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ چودہ دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کا آغاز کریں گے 
عمران خان کے مطابق ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ چودہ دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کا آغاز کریں گے تصویر: Pervez Masih/AP Photo/picture alliance

پاکستان تحریک انصاف کے جیل میں قید سربراہ  عمران خان  نے اپنی جماعت کے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ چودہ دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کا آغاز کریں گے۔ 

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید عمران خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک پانچ رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت کو نتائج کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔

عمران خان جن دو واقعات کی عدالتی کمیشن کے زریعے  تحقیقات چاہتے ہیں، ان  میں پی ٹی آئی نے حکومت کے خلاف مظاہرے کیے تھے، جو حکومت نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ناکام بنا دیے تھے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ کی وجہ سے اس کے کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور بڑی تعداد میں کارکنوں کو ریاستی اہلکاروں  نے گرفتار بھی کیا۔

پی ٹی آئی کی قیادت کے مطابق ان کے سینکٹروں کارکن جیلوں میں قید ہیں
پی ٹی آئی کی قیادت کے مطابق ان کے سینکٹروں کارکن جیلوں میں قید ہیںتصویر: Irtisham Ahmed/picture alliance/AP

خان نے اپنی پوسٹ میں کہا، ''تحریک کے ایک حصے کے طور پر، ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہیں گے کہ وہ ترسیلات زر میں کمی کریں اور بائیکاٹ کی مہم شروع کریں۔ دوسرے مرحلے میں، ہم اپنے اقدامات کو مزید بڑھائیں گے۔‘‘

پی ٹی آئی سول نافرمانی کی تحریک چلائے گی؟

سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے  لیے اس وقت سول نافرمانی کی کسی موثر تحریک کی کامیابی کی گنجائش کم دکھائی دیتی ہے۔ ان مبصرین کے بقول پی ٹی آئی نے  عمران خان کی رہائی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے جو مظاہرے کیے وہ غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے ناکام ہوئے اور اس  وجہ سے پارٹی میں اندرونی جھگڑے ہیں اور لیڈرز ایک دوسرے کو ان ناکامیوں کے لیے زمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔

 سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے، ''ایسی تحریکیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ یہ ایک دھمکی ہی رہے گی، پی ٹی آئی اس کا آغاز نہیں کرے گی۔ اس خطے میں خاص طور پر ایسی تحریکوں کو بڑے پیمانے پر حمایت نہیں ملتی کیونکہ لوگ ریاست کے خلاف لڑ نہیں سکتے اور ایسے اقدامات کے برے نتائج ہوتے ہیں، جن کا سامنا افراد کو کرنا پڑتا ہے۔‘‘

وہ مبصرین جو اس شہری نافرمانی کی تحریک کے غیر عملی ہونے پر یقین رکھتے ہیں،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت عمران خان کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کر سکتی اور اسے پی ٹی آئی کی طرف سے اٹھائے گئے جائز مسائل پر بات چیت کرنی چاہیے۔ کیونکہ ملک میں مثبت اور نتیجہ خیز مذاکرات کے بغیر سیاسی درجہ حرارت کم نہیں کیا جا سکتا۔

سیاسی تجزیہ کار ثنا بُچہ کہتی ہیں، '' عمران خان کے دو مطالبات جائز لگتے ہیں۔ ایک، زیرِ حراست قیدیوں کی رہائی؛ دوسرا، نو مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن کا قیام۔ پاکستان میں عدالتی کمیشن کی تحقیقات کی تاریخ اچھی نہیں ہے اور کبھی بھی شفاف جوابات نہیں ملے، لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت شروع کرنا سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،''خان کو سیاسی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے کیونکہ افراتفری اور انتشار جو نو مئی کے واقعے کے بعد پیدا ہوا اور جس میں ان کے خلاف اور ایک سو سے زیادہ افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی، ابھی تک عدلیہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ کیا شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ آئینی بینچ  حکومت کے کنٹرول میں ہے، خان کے پاس عوامی احتجاج کے لیے ذیادہ گنجائش نہیں ہے۔‘‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الحال فوج اور پی ٹی آئی دونوں ہی اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الحال فوج اور پی ٹی آئی دونوں ہی اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیںتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS//W.K. Yousufzai/W.K. Yousufzai/picture alliance

سول نافرمانی کی دھمکی پہلے بھی

یہ پہلی بار نہیں ہے، جب عمران خان نے سول نافرمانی کی اپیل کی ہے۔ 2014 میں، انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف ایک ایسی ہی مہم کی قیادت کی تھی، جس میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی روک دیں۔ یوٹیلیٹی بلز کو جلانے کے مظاہرے بھی کیے گئے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں، ''نہ تو ماضی میں یہ کامیاب ہوا، نہ ہی اس بار ہو سکتا ہے۔ لوگ آخرکار بل ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں تک غیر ملکی ترسیلات کا تعلق ہے، لوگ اپنے گھروں کو پیسے بھیجتے ہیں اور وہ اپنے خاندانوں کی مدد کے لیے بھیجتے رہیں گے۔ خان کو معاملات طے کرنے کے لیے سیاسی مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔‘‘

کیا مذاکرات ممکن ہیں؟

پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس وقت ماحول بات چیت کے لیے دوستانہ نہیں ہے کیونکہ دونوں حریف، پی ٹی آئی اور حکومت جو کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہے، لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ثنا بُچہ کہتی ہیں، ''فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان اب بھی بہت دوری ہے اوردونوں ہی لچک دکھانے کے لیے تیارنہیں ہیں۔‘‘ لیکن انہوں نے کہا کہ  دونوں فریقین کے لیے سیاسی بحران  کم کرنے کا واحد قابل عمل آپشن بات چیت ہی ہے۔

پی ٹی آئی کے رہنما بھی مذاکرات کی کامیابی پر یقین نہیں رکھتے اور وہ اس بات پر بھی واضح نہیں ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوں تو وہ کیا حکمت عملی اپنائیں گے۔ پی ٹی آئی  کے رہنما اور پیشے کے اعتبار سے سپریم کورٹ  کے وکیل شعیب شاہین کا کہنا ہے، ''ہم نے اس سول نافرمانی کی تفصیلات پر بات نہیں کی جس کی عمران خان نے وارننگ دی ہے۔ یہ ابھی بہت ابتدائی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ناممکن لگتا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، اس لیے ہم پارٹی میٹنگز میں اس معاملے پر بات کریں گے کہ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اور مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔‘‘

حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد پی ٹی آئی کا دھرنا ختم