غور کیجیے، کہیں قاتل ہم ہی نہ ہوں!
14 جنوری 2021پاکستان کا شہر لاہور تاریخی اور ثقافتی اعتبار سے جنوبی ایشیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ مغلیہ دور کے فن تعمیرات کے شاہکار ہوں یا جدید دور کا فیشن اور لائف اسٹائل ، اس شہر سے بہت سے نئے رجحانات جنم لیتے ہیں۔ پاکستان کے صوبے پنجاب کی ثقافت، وہاں کا رہن سہن، روز مرہ زندگی کے معاملات، رقص و موسیقی کی جھنکار اور تقریبات کا ایک اپنا رنگ ہے۔ انہی رنگوں میں اکثر معاشرے کی وہ حقیقت پوشیدہ ہو جاتی ہے جو بدنما، ناپسندیدہ اور ناقابل ذکر سمجھی جاتی ہے۔ لیکن کیا حقیقت سے چشم پوشی کرنے سے حقیقت بدل جاتی ہے؟
پاکستانی معاشرے میں دونوں ' اکسٹریمز‘ یعنی انتہائیں پائی جاتی ہے۔ ایک طرف ایسی لڑکیاں ہیں، جنہیں امیر والدین تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی شادیوں میں دکھاوے کا کوئی ایک پہلو بھی باقی نہیں چھوڑتے۔ لیکن ایسے والدین معاشرے کی اکثریت نہیں ہیں۔
پاکستان کی اکثریتی آبادی تو محنت مزدوری کر کے دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے رات دن ایک کر دیتی ہے۔ معاشرے کا یہ طبقہ معاشی بدحالی اور غربت سے تو تنگ ہوتا ہی ہے لیکن 'بیٹی کا بوجھ‘ برداشت کرنے کی بھی بہت کم صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر غریب ماں باپ کے ہاں ایسے بچے، خاص طور سے ایسی بیٹیاں پیدا ہو جائیں، جو جسمانی اور اعصابی اعتبار سے معذور ہوں، تو ماں باپ جیتے جی مر جاتے ہیں۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ لاہور کا ستر سالہ ضیا بٹ وحشی یا درندہ تھا یا دو معذور بیٹیوں کا یہ باپ بے بسی، لاچارگی اور زندگی کی ستم ظریقی سے ہارا ہوا وہ شخص تھا، جسے موت کے سوا کسی چیز میں نجات نہیں نظر آئی؟
34 سالہ سعدیہ اور 31 سالہ اقصیٰ نے جب ضیا بٹ کے ہاں جنم لیا تھا، اُس وقت تو غالباً ان بیٹیوں کو گھر کی رونق سمجھا گیا ہو گا۔ باپ نے بیٹیوں کے ناز نخرے اُٹھائے ہوں گے، انہیں پروان چڑھانے، ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو گی۔ اقبال ٹاؤن کے علاقے راجگڑھ میں چھوٹے سے مکان میں سعدیہ اور اقصیٰ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ ان کی ماں نے پولیس کو جو بیان دیا اُس کے مطابق ضیا بٹ اپنی دونوں بیٹیوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ ان کی رات دن دیکھ بھال کرنا، انہیں کھانا کھلانے سے لے کر ان کے لباس تبدیل کرانے تک۔ تمام ذمہ داری اُس بوڑھے باپ نے اپنے ہی کاندھوں پر لے رکھی تھی۔
ماں نے مزید تفصیلات میں یہ بھی بتایا کہ ضیا بٹ اپنی دونوں بیٹیوں کے مستقبل کے لیے بہت فکر مند تھا کیونکہ جسمانی اور ذہنی معذوری کی وجہ سے انہیں خصوصی نگہداشت کی ضرورت تھی۔ مقتول خواتین کی ماں نے پولیس کو بیان دیتے ہوئے بتایا کہ منگل کی رات سونے سے پہلے ضیا بٹ نے کہا تھا،'' میرے بعد میری اپاہج اور بے بس بیٹیوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘
پولیس تفتیش کاروں نے اپنی رپورٹ میں بھی یہی درج کیا ہے کہ ضیا بٹ نے اپنی بیٹیوں کے مستقبل کی فکر سے تنگ آکر انہیں قتل کر دیا۔ اس کی دونوں بیٹیاں 'پیدائشی طور پر معذور‘ تھیں۔
کچھ عرصے سے بھارت اور پاکستان میں شادیوں میں ایک گانے کی گونج بہت زیادہ سنائی دے رہی ہے۔ ''بابا میں تیری ملکہ، ٹکڑا ہوں تیرے دل کا، اک بار پھر سے دہلیز پار کرا دے۔‘‘ شاید سعدیہ اور اقصیٰ نے مرتے وقت باپ سے کہا ہو گا،'' ایسی جدائی ہو تو، دہلیز درد کی بھی پار کرا دے۔‘‘
ضیا بٹ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ساتھ خود بھی رخصت ہو گیا تاہم پورے معاشرے کے لیے یہ سوالات چھوڑ گیا ہے کہ''باپ بیٹی کا رشتہ اور تعلق تو ہر معاشرے میں بہت قریبی، محبت اور شفقت سے بھرپور سمجھا جاتا ہے۔ پھر کوئی باپ بیٹیوں کا گلا کاٹنے پر کیسے مجبور ہو سکتا ہے؟ وہ کیا عوامل تھے، جنہوں نے ضیا بٹ کو ایسا کرنے پر مجبور کیا، حکومتی اداروں کی نااہلی، سماج کی بے حسی، غربت اور معاشرتی زبوں حالی کی یہ کون سی سطح ہے، جب باپ اپنی ان بیٹیوں کا گلا کاٹ دیتا ہے، جن کے لیے اپنا جیون قربان کیا ہوتا ہے۔
بظاہر عمر رسیدہ اور بوڑھے باپ نے اپنی بیٹیوں کو خود قتل کیا ہے لیکن غور کیجیے، کہیں قاتل حکومتی ادارے اور یہ معاشرہ ہی نہ ہو، غور کیجیے، کہیں قاتل ہم ہی نہ ہوں۔