1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرار ہوتے مہاجرین آخری چيز کيا اٹھاتے ہيں؟

عاصم سلیم
8 دسمبر 2016

ايک امدادی تنظيم اپنے ايک منفرد منصوے کے ذريعے مہاجرين کے بحران کے انسانی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش ميں ہے۔ اس فلم ميں يہ دکھايا گيا ہے کہ جنگ سے فرار ہوتے وقت پناہ گزين ساتھ لے جانے کے ليے آخری چيز کيا اٹھاتے ہيں۔

https://p.dw.com/p/2TxW3
Serbien Flüchtlingslager UNHCR-Zelt
تصویر: DW/R. Breuer

جب شامی پناہ گزين زکريہ السيدی اپنی جان بچانے کے ليے اپنا گھر بار اور گاؤں چھوڑ کر فرار ہو رہا تھا، تو اس نے اپنے ساتھ لے جانے کے ليے محض چند ہی اشياء کا انتخاب کيا۔ ايسی صورتحال ميں کوئی بھی شخص عموماً انہی چيزوں کا انتخاب کرتا ہے، جو اشد ضروری ہوں اور جو اس کے دل کے کافی قريب ہوں۔

السيدی نے اٹھايا اپنا پاسپورٹ، کچھ رقم اور اپنے بھائی کی وہ جيکٹ جو اس نے اپنی وفات کے وقت پہن رکھی تھی۔ اسی طرح فرار ہوتے وقت ايک اور پناہ گزين عمل طياوی نے اپنی بہن کی جانب سے تحفے کے طور پر ديا جانے والا ہاتھ کا کڑا ساتھ ليا، انس حميدی نے اپنی نظموں کا مجموعہ اٹھايا اور پانچ سالہ نظار رستناوی نے اپنا من پسند کھلونا اسپائڈرمين ساتھ لے جانا ضروری سمجھا۔

ان انتہائی اہم اشياء، ان سے منسلک يادوں اور کہانيوں کو ايک فلم ميں سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ امدادی تنظيم انٹرنيشنل ميڈيکل کور کے اس منصوبے ميں مہاجرين کے بحران کے انسانی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

يہ ويڈيوز ترکی ميں فلمائی گئی ہيں۔ شام ميں مارچ سن 2011 سے جاری خانہ جنگی کے سبب گيارہ ملين شہری بے گھر ہو چکے ہيں، جن ميں سے 2.7 ملين نے ترکی ميں پناہ لے رکھی ہے۔ پناہ گزينوں کی اکثريت کو بمباری اور فائرنگ سے بچتے وقت اپنا سامان باندھنے کا تو وقت ہی ميسر نہ تھا۔ اسی ليے انہوں نے محض وہ اشياء ساتھ لیں، جن کی ان کے ليے بے انتہا اہميت تھی۔

Griechenland Flüchtlinge Kinder Hafen
تصویر: Getty Images/D.Kitwood

جب شامی پناہ گزين زکريہ السيدی کے ليے اہم چیز  اس کے بھائی کی وہ جيکٹ تھی، جو سرطان کی وجہ سے ہلاک ہو گيا تھا۔ السيدی نے بتايا کہ اس کی اس جيکٹ سے ياديں وابستہ ہيں، ’’مجھے جيکٹ کو ہاتھ ميں لينے ميں خوشی محسوس ہوتی ہے کيوں کہ وہ ميرے بھائی کی ہے اور مجھے ايسا لگتا ہے کہ جيسے وہ ميرے ساتھ ہی ہے۔ تاہم ميں افسردہ بھی ہو جاتا ہوں کہ کہ دراصل وہ اب اس دنيا ميں نہيں۔ اس کی مہک البتہ جيکٹ ميں آج تک ہے۔‘‘

شام ہی سے تعلق رکھنے والے اس فلم کے کيمرا مين سلام رزيک کا کہنا ہے کہ ’دا تھنگز وی کيری‘ نامی يہ منصوبہ، لوگوں کو يہ سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ اگر وہ ايسی ہی صورتحال سے دوچار ہوں، تو وہ اپنی کون سی چيز ساتھ اٹھائيں گے۔ انہوں نے بتايا، ’’ہر کسی کا گھر بھی ہوتا ہے اور پسنديدہ چيزيں بھی۔ يہ منصوبہ اصل ميں مہاجرين کی افراد کے طور پر شناخت کرانے ميں مدد دے گا، نہ کہ محض اعداد و شمار کے ذريعے۔ يہ دستاويزی فلم منگل کے روز برطانوی دارالحکومت لندن ميں نمائش کے ليے پيش کی گئی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید