فرانسیسی صدارتی الیکشن میں اہم امیدوار کون کون
23 اپریل 2017یورپی یونین کے رکن اور جرمنی کے ہمسایہ ملک فرانس میں صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں رائے دہی کے لیے آج ملک کے 47 ملین کے قریب رجسٹرڈ ووٹروں کو اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ الیکشن کے لیے قریب 70 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، جہاں سکیورٹی فرائض کی انجام دہی کے لیے قریب 50 ہزار پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ اسی مقصد کے لیے قریب سات ہزار فوجی بھی اضافی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
فرانس میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ شروع
یورپ کے تین اہم ملکوں میں انتخابات اور مہاجرین کا مستقبل
فرانس: صدارتی امیدوار مارین لے پین کی پارلیمانی مامونیت ختم
مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہو کر شام آٹھ بجے تک جاری رہنے والی اس رائے دہی میں عوام کو صدارتی عہدے کے لیے کل 11 امیدواروں میں سے کسی نہ کسی کی حمایت تو کرنا ہی ہے لیکن تبصرہ نگاروں کے مطابق ان انتخابات میں اصل مقابلہ دراصل تین بڑے امیدواروں کے مابین ہو رہا ہے۔
فرانسیسی صدارتی الیکشن کے ان تین اہم ترین امیدواروں میں سے ایک انتہائی دائیں بازو کی ایسی خاتون سیاستدان بھی ہیں، جن کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تعریف کر چکے ہیں۔ دوسرے ایک ایسے قدامت پسند سیاستدان ہیں، جنہیں ایک بڑے اسکینڈل کا سامنا رہا ہے اور تیسرے ایک ایسے 39 سالہ سابقہ سرمایہ کاری بینکار جنہیں اب تک ووٹروں کی غیر متوقع حد تک زیادہ حمایت حاصل ہوئی ہے۔
مارین لے پین
فرانسیسی خاتون سیاستدان مارین لے پین 2011ء میں اپنی یورپی یونین اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی سربراہ بنی تھیں۔ ان پر سیاست میں نسل پرستانہ رویوں کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ مارین لے پین اپنی اور اپنی پارٹی کی سوچ کا دفاع یہ کہتے ہوئے کرتی ہیں کہ وہ فرانسیسی صدارتی امیدوار کے طور پر ملکی مفادات کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی قائل ہیں۔
اندزہ ہے کہ آج پہلے مرحلے کی رائے دہی میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ پچاس فیصد تائید حاصل نہ ہونے کی صورت میں مارین لے پین اگر باقی تمام امیدواروں سے آگے نہ بھی رہیں تو وہ سب سے زیادہ عوامی تائید حاصل کرنے والے دو بڑے امیدواروں میں سے ایک تو ضرور ہوں گی اور یوں سات مئی کو ان انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے والے دو حتمی امیدواروں میں سے ایک ہوں گی۔
48 سالہ لے پین کے بارے میں سیاسی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ پہلے مرحلے کے بعد دوسرے انتخابی مرحلے میں پہنچ گئیں تو ان کے لیے مئی میں اپنے حریف پر سبقت لینا اس لیے کافی مشکل ہو گا کہ حتمی کامیابی کے لیے کسی بھی امیدوار کو کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے 50 فیصد سے زائد حاصل کرنا ہوں گے۔
مارین لے پین ایک سابقہ وکیل ہیں، انہیں دو مرتبہ طلاق ہو چکی ہے اور وہ تین بچوں کی والدہ ہیں۔ انہوں نے اپنی آج تک کی سیاسی مہم میں یہ نعرہ لگایا کہ وہ اور ان کی پارٹی ایسے ’’محب وطن‘‘ ہیں جو فرانس کے مفادات کو اولین ترجیح دیتے ہیں جبکہ دیگر حریف امیدوار وہ ’’عالمگیریت پسند‘‘ ہیں، جو مزید تارکین وطن کی آمد اور کھلی قومی سرحدوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ایمانوئل ماکروں
انہی انتخابات میں دوسرے اہم ترین صدارتی امیدوار انتالیس سالہ سابق سرمایہ کاری بینکار ایمانوئل ماکروں ہیں، جو نہ صرف موجودہ صدر فرانسوا اولانڈ کے مشیر اور ملکی وزیر اقتصادیات رہ چکے ہیں بلکہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے فرانس کی تاریخ کے سب سے کم عمر ملکی صدر بھی بننا چاہتے ہیں۔
ماکروں گزشتہ برس اولانڈ حکومت سے علیحدہ ہو گئے تھے اور انہوں نے سیاسی طور پر اپنی ایک اعتدال پسند سیاسی تحریک شروع کی تھی، جس کا نام En Marche یا On the Move ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ماکروں اور لے پین کے مابین بہت سخت مقابلہ ہو گا اور اگر دسرے مرحلے میں یہی دو امیدوار آمنے سامنے ہوئے تو ماکروں بڑی آسانی سے لے پین کو ہرا دیں گے۔
ایمانوئل ماکروں نے اب سے پہلے کبھی بھی کسی الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی بزنس اور یورپی یونین کے حق میں پالیسیوں کے ساتھ فرانسیسی معاشرے اور معیشت کو وہ تحریک دے سکتے ہیں، جس کی اس ملک کو اس وقت سخت ضرورت ہے، وہ بھی اس لیے کہ اس وقت فرانس میں بے روزگاری کی شرح دس فیصد سے زیادہ ہے۔
فرانسوا فِیوں
فرانسیسی صدارتی الیکشن کے تین اہم ترین امیدواروں میں سے ایک فرانسوا فِیوں ہیں، جو سابق صدر نکولا سارکوزی کے دور میں ملکی وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں اور ایک تجربہ کار قدامت پسند سیاستدان ہیں۔ اس سال کے آغاز پر فِیوں سب سے مضبوط صدارتی امیدوار تھے لیکن پھر انہیں ایک ایسے مالی اسکینڈل کا سامنا کرنا پڑ گیا، جس کے مطابق وہ خود اپنی ہی بیوی کو اپنے پارلیمانی دفتر میں ایک نام نہاد ملازمت دے کر سرکاری رقوم کے غلط استعمال کے مرتکب ہوئے تھے۔
فِیوں اس بات پر افسوس کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان سے کچھ غلطی ہوئی تھی لیکن وہ قانوناﹰ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی صدارتی امیدواری سے دستبردار ہونے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ فِیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کو محض سرکاری دستاویزات میں اپنی پارلیمانی اسسٹنٹ ظاہر کر کے انہیں کی جانے والی ادائیگیوں کے طور پر جو سرکاری رقوم غلط استعمال کیں، ان کی مالیت لاکھوں یورو بنتی ہے۔
63 سالہ فِیوں ایک راسخ العقیدہ کیتھولک مسیحی ہیں اور وہ سرکاری اخراجات میں کمی کے حامی ہیں۔ اسی لیے انہوں نے کہا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو گئے تو اگلے پانچ برسوں کے دوران عوامی شعبے میں قریب پانچ لاکھ ملازمتیں ختم کر دی جائیں گی۔
ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ فرانسیسی ووٹر آج کی رائے دہی کے نتیجے میں سات مئی کے انتخابی معرکے کے لیے کن دو حتمی امیدواروں کا انتخاب کرتے ہیں۔