فضائی حملے کے لیے پاکستان کی رضامندی حاصل کی گئی، وال اسٹریٹ جرنل
2 دسمبر 2011یہ رپورٹ اس واقعے کی ابتدائی تحقیقات سے متعلق بریفنگ میں شرکت کرنے والے امریکی اہلکاروں کے حوالے سے مؤقر امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
اہلکاروں نے جریدے کو بتایا کہ افغان فوج کی قیادت میں سرگرمِ عمل فورس، جس میں امریکی کمانڈوز بھی شامل تھے، افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے نزدیک طالبان جنگجوؤں کا تعاقب کر رہی تھی کہ اچانک ان پر فائرنگ شروع ہو گئی۔ انہوں نے یہ خیال کیا کہ یہ فائرنگ عسکریت پسندوں کے کسی ٹھکانے سے کی جا رہی ہے۔
اس پر انہوں نے فضائی مدد طلب کرنے سے پہلے ایک مشترکہ کمانڈ اور کنٹرول سینٹر سے بھی رابطہ کیا، جس میں امریکی، افغان اور پاکستانی فوجی تعینات تھے۔ وہاں موجود پاکستانی نمائندوں نے کہا کہ اس علاقے میں کوئی دوستانہ فورسز موجود نہیں ہیں اور یوں فضائی حملے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تاہم اہلکاروں نے دونوں جانب سے ہونے والی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ ایک اہلکار نے وال اسٹریٹ جرنل سے گفتگو میں کہا، ’’بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ موقع کے بارے میں کچھ زیادہ آگاہی نہیں تھی کہ وہاں اُس وقت کون موجود تھا اور کیا کر رہا تھا۔‘‘
انہوں نے اس بارے میں بھی خبردار کیا کہ یہ بیان اس حملے میں شامل کمانڈوز کے ابتدائی انٹرویوز پر مشتمل ہے اور مزید تفصیلات سامنے آنے کے بعد یہ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔
پینٹا گون کا اصرار ہے کہ پاکستانی فورسز پر جان بوجھ کر حملہ نہیں کیا گیا تاہم امریکی حکام نے اس واقعے پر کوئی معذرت بھی نہیں کی ہے۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ اس کے فوجیوں پر ہونے والا حملہ ایک بلا اشتعال کی جانے والی کارروائی تھی اور امریکیوں سے اس پر احتجاج کرنے کے باوجود یہ کارروائی دو گھنٹے تک جاری رہی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ان دو اہم اتحادی ملکوں کے درمیان تعلقات میں کافی عرصے سے کشیدگی چلی آ رہی ہے اور واشنگٹن کا الزام ہے کہ پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس سروسز کے بعض عناصر کا طالبان اور دیگر اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی