فلموں کے ذریعے امن، اسلام آباد میں ایشیا فلم فیسٹیول
20 ستمبر 2017پیر اٹھارہ ستمبر کو شروع ہو کر آج بدھ کے روز ختم ہونے والا یہ تین روزہ میلہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا بین الاقوامی اجتماع تھا، جس میں متعدد ایشیائی ممالک کے معروف فلم سازوں نے امن کے موضوع پر بنائی گئی اپنی فلمیں نمائش کے لیے پیش کیں۔
اس میلے کا افتتاح پاکستان وزیر داخلہ احسن اقبال نے کیا تھا، جنہوں نے اپنے خطاب میں زور دے کر کہا کہ پاکستانی حکومت ملک میں فلمی صنعت کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ فلم تین روزہ میلہ ایشیائی ممالک کے فلم سازوں اور فنکاروں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
اسلام آباد میں تین روزہ رنگا رنگ ادبی میلہ اختتام پذیر
کراچی ادبی میلہ: دس ممالک سے دو سو سے زائد ادیبوں کی شرکت
افتتاحی تقریب سے اپنے خطاب میں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل جمال شاہ نے کہا، ’’پاکستان میں ضیاالحق کی فوجی آمریت کے دور نے فلم انڈسٹری کو تباہ کر دیا اور ملک میں شدت پسندی کو فروغ دیا گیا۔ اس امن فیسٹیول کے انعقاد کا مقصد خطے میں ثقافت اور فلم کے ذریعے امن کا پیغام پھیلانا ہے۔‘‘
جمال شاہ نے مزید کہا، ’’ایک فوجی آمر کے بطور ضیاالحق تین ماہ کے لیے آیا اور گیارہ سال تک اقتدار سے چمٹا رہا۔ اس دوران نہ صرف ملک میں فلم اور سینما کو شدید نقصان پہنچا بلکہ پاکستان کا بھی منفی امیج ابھرا۔ اب لیکن ہم فلمی صنعت کے فروغ کے ساتھ اس منفی امیج کی باقیات کو ختم کرتے ہوئے ایک مثبت امیج سامنے لا رہے ہیں۔‘‘
اس ایشیا امن فلمی میلے کی پروجیکٹ مینیجر ایزا خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس پروجیکٹ کو لانچ کرنے کا ہمارا بنیادی مقصد یہ تھا کہ امن کا پرچار کیا جائے اور ایشیائی ممالک کی فلمی صنعتوں کے مابین دوستانہ تعلقات کو فروغ دیا جائے تاکہ یوں ان ممالک کے مابین تعلقات بالخصوص فلم کے شعبے میں روابط کو بھی مضبوط بنایا جائے۔‘‘
ایزا خان نے بتایا کہ اس ایشیا امن فلم فیسٹیول میں تیس سے زائد ممالک کے وفود نے حصہ لیا، جن میں ایران، ترکی، عراق، افغانستان، سری لنکا، سنگاپور، چین، انڈونیشیا اور ملائشیا جیسے ممالک نمایاں تھے۔ ایزا خان کے مطابق، ’’ان میں سے کئی غیر ملکی مہمان پاکستان کے بارے میں منفی پراپیگنڈے کے باعث ڈرے ہوئے تھے کہ شاید یہاں وہ اپنے لباس نہیں پہن سکیں گے یا کوئی ہر وقت بندوق لیے ان کے سروں پر سوار رہے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ان کے لیے یہاں کے حالات ان کے خدشات کے بالکل برعکس تھے۔ اس لیے وہ نہ صرف بہت خوش تھے بلکہ کئی شرکا تو اس میلے کے دوران بڑے شوق سے پاکستانی لباس بھی پہنتے رہے۔‘‘
اس فیسٹیول کے انعقاد کے دوران درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اس میلے کی پروجیکٹ مینیجر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہر کام میں مشکلات اور رکاوٹیں تو ہوتی ہیں لیکن وزارت اطلاعات نے اس سلسلے میں ہم سے بہت تعاون کیا۔ آرٹس کونسل نے بھی بھرپور تعاون کیا اور ہمیں ستر کے قریب رضاکاروں کی مدد بھی حاصل رہی۔ یہ اپنی نوعیت کا نہ صرف پاکستان بلکہ پورے ایشیا میں پہلا میلہ تھا اور اب دیگر ایشیائی ممالک میں بھی اس کے انعقاد کے ارادے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔‘‘
دس ممالک کے ایک کنسورشیم کی طرف سے منعقد کرائے گئے اس میلے میں مہمانوں کی دلچسپی کے لیے رنگا رنگ اسٹالز بھی لگائے گئے تھے، جہاں علاقائی دستکاریوں کے نمونوں، ملبوسات اور جیولری مصنوعات میں میلے میں شریک مہمانوں نے بڑئی دلچسپی دکھائی۔
اس میلے کے دوران متعدد ورکشاپس اور سیمینارز کا اہتمام بھی کیا گیا، جن میں ایک بہت دلچسپ سیمینار اس بارے میں بھی تھا کہ انسانی حقوق کے تحفظ میں فلم انڈسٹری کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔