فولی کی رہائی کے لیے تاوان مانگا گیا تھا
22 اگست 2014جیمز فولی نیوز ویب سائٹ گلوبل پوسٹ کے لیے کام کرتے تھے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس ویب سائٹ کے سربراہ فِلپ بیلبونی نے تصدیق کی ہے کہ فولی کے اغواء کاروں نے ابتداء میں ایک سو ملین یورو (132 ملین ڈالر) تاوان مانگا تھا۔
فولی شام میں گلوبل پوسٹ اور اے ایف پی سمیت دیگر اداروں کے لیے رپورٹنگ کر رہے تھے جب نومبر 2012ء میں انہیں اغواء کر لیا گیا تھا۔ بیلبونی ان کا پتہ لگانے اور ان کی رہائی کی کوششوں میں پیش پیش رہے تھے۔
خود ساختہ اسلامی ریاست چلانے والے شدت پسند گروہ نے حالیہ دِنوں میں عراق کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ رواں ہفتے منگل کو اس گروہ نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں ایک شدت پسند کو فولی کا سر قلم کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
بیلبونی کا کہنا ہے کہ اغواء کاروں نے گلوبل پوسٹ اور فولی کے خاندان سے تین چار مرتبہ رابطہ کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اغواء کاروں نے اتنی بڑی رقم میں کمی بیشی کے لیے کبھی کوئی بات نہیں کی تھی بلکہ ہمیشہ اپنا مطالبہ سامنے رکھا۔
بیلبونی نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا: ’’ہم نے ایک سو ملین یورو پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ فولی کی تلاش سے متعلق انہیں اور مقتول صحافی کے خاندان کو جو معلومات بھی حاصل تھیں وہ ایف بی آئی اور امریکی محکمہ خارجہ کو فراہم کی گئی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی اغواء کاروں سے ہونے والے رابطے کے بارے میں بھی حکام کو مطلع کیا گیا تھا۔
امریکی حکومت تاوان کی ادائیگی کی مخالفت کرتی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ ایسا کرنے سے محض اغواء کی مزید کارروائیوں کی حوصلہ افزائی ہی ہو گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہیرف نے جمعرات کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ہم دہشت گردوں کو رعایتیں نہیں دیتے۔ اس میں یہ نکتہ بھی شامل ہے: ہم تاوان نہیں دیتے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ایسی ادائیگیوں سے ان گروہوں کو مالی معاونت ہی ملے گی جنہیں ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے بیلبونی نے کہا ہے کہ گزشتہ برس اسلامی ریاست نے متعدد یورپی مغویوں کو رہا کیا تھا جن کی رہائی کے لیے لی گئی رقم متوقع طور پر فولی کے لیے مانگے گئے تاوان سے ’ڈرامائی‘ حد تک کم تھی۔