فہرست کا اجراء: صحافتی برادری کو تشویش
3 دسمبر 2020واضح رہے کہ آج پاکستان کے کئی صحافی اور سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے پی ٹی آئی کے آفیشل ہینڈل سے جاری ہونے والی اس فہرست کو بڑے پیمانے پر شئیر کیا گیا ہے جس میں نہ صرف پی ٹی آئی کے نا پسندیدہ صحافیوں کو کرپٹ کہا گیا بلکہ ایک ایسی بھی لسٹ جاری کی گئی جس میں پسندیدہ صحافیوں کے نام بھی شائع کئے گئے۔ اس لسٹ میں حامد میر، عاصمہ شیرازی، جاوید چوہدری، نجم سیٹھی، نسیم زہرہ، طلعت حسین، منصور علی خان، غریدہ فاروقی اور سلیم خان صافی کو کرپٹ صحافی قرار دیا جب کہ صابر شاکر، عمران ریاض خان، ملیحہ ہاشمی، کاشف عباسی، معید پیرزادہ، سمیع ابراہیم اور کچھ اور صحافیوں کے نام لکھ کر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ اس ٹوئیٹ کو بعد میں ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
'پاکستانی ریاست صحافت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ‘
نواز کے ایجنٹ
پی ٹی آئی کی طرف سے ابھی تک اس ٹوئیٹ کا کوئی باضابطہ جواب نہیں آیا۔ تاہم پارٹی کے لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس ٹوئیٹ کا دفاع کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " یہ ٹوئیٹ پی ٹی آئی سینٹرل پنجاب کی طرف سے جاری کی گئی تھی اور اس ٹوئیٹ میں کوئی غلط بات نہیں تھی۔ ایک آمر کے دور میں صحافت میں کئی ایسے افراد شامل ہوگئے، جنہیں غیر جانبداری اور معروضیت کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ وہ نون لیگ کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے تنخواہ دار ہیں۔ جب وہ جانب داری کرینگے، تو ان کو تنقید بھی برداشت کرنی پڑے گی۔ یہ صحافی کرپٹ ٹولے کی حمایت کرتے ہیں اور پی ٹی آئی کو بدنام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اب چینی بائیس روپے سستی ہے۔ ایکسپورٹ بڑھ رہی ہے۔ تعمیرات کا شعبہ ترقی کر رہا ہے لیکن انہیں ن لیگ کی تعریف کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ تو ایسے نام نہاد صحافیوں کو ہم بے نقاب کریں گے۔"
سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے رہنما اسحاق خاکوانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر صحافیوں پر الزامات لگے ہیں، تو وہ بھی اپنی صفائی پیش کریں۔ "صحافی بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں، جسے وہ خود بھی کرپٹ کہتے ہیں۔ ان کے مطابق ایس ایچ او، تاجر، حکومتی افسر سب کرپٹ ہیں۔ اگر صحافی سب پر الزامات لگاتے ہیں اور اب کسی نے ان پر الزامات لگائے ہیں، تو وہ شور مچانے کے بجائے، ان الزامات کا جواب دیں اور اپنا دفاع کریں۔ کیا ملک میں کئی ایسے صحافی نہیں ہیں، جنہوں نے بے پناہ پیسہ کمایا ہے۔ نوے کی دہائی میں جو صحافی کنگلے تھے، آج ان کے پاس پیسے کی ریل پیل ہے۔ تو کیوں نہ ہوں ایسے صحافیوں سے سوال و جواب۔"
صحافی برادری چراغ پا
پی ٹی آئی کی رائے کے برعکس صحافتی برادری اس فہرست کے اجرا کو ڈرانے، دھمکانے اور ہراساں کرنے سے تعبیر کرتی ہے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ اس اجرا سے صحافیوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پی ٹی آئی کے جلسوں میں ماضی میں بھی صحافیوں پر حملے ہوئے ہیں۔ ان کو ہراساں کیا گیا اور ان پر پتھراو کیا گیا۔ اب اس فہرست میں جن صحافیوں کے نام ہیں، ان کے لئے نہ صرف پی ٹی آئی کے جلسے جلوس کو کور کرنا مشکل ہوگا بلکہ اگر وہ عوامی مقامات پر پروگرام کریں گے، تو اس سے بھی ان کی سیکیورٹی کو خطرہ ہوگا۔ ہمیں اس فہرست پر سخت تشویش ہے اور ہم اسے فاشسٹ ہتھکنڈہ سمجھتے ہیں اور ہم اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔"
یہ پرانی روایت ہے
معروف صحافی اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکیٹو ایڈیٹر ضیا الدین صحافتی تنظیموں کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں کہ لسٹ کے اجرا سے صحافیوں کو پریشانی ہوگی۔ تاہم وہ اس تاثر کو بھی غلط قرار دیتے ہیں کہ یہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت کی طرف سے ہی ہوا ہے یا یہ پہلا موقع ہے کہ ایسی کوئی لسٹ جاری ہوئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ماضی میں نواز شریف کے دور حکومت میں ایسی ہی ایک لسٹ جاری ہوئی تھی، جس میں میرا بھی نام تھا اور نون لیگ کے ایک وفاقی وزیر نے مجھے فون کر کے کہا کہ لسٹ جھوٹی ہے۔ اسی طرح پی پی پی کے دور میں ایک لسٹ جاری ہوئی۔ میں اس وقت دی نیوزکا ایڈیٹر تھا۔ اس لسٹ میں نصرت جاوید کا نام سر فہرست تھا اور ہم نے اس فہرست کو جھوٹا قرار دیا۔ تو یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایسی کوئی لسٹ آئی ہے۔ میرے خیال میں ایسی لسٹیں بنانے میں وزارت اطلاعات کی کچھ نچلے درجے کے ملازمین اور خفیہ ایجنسیوں کے لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ اور موجودہ لسٹ میں بھی یہ ہی ہوا ہے۔ اس میں جاسوس ایجنسیوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ فہرست میں زیادہ تر ایسے صحافیوں کے نام ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہیں۔"
پاکستانی صحافیوں کا محتسب مقرر کرنے کا مطالبہ
صحافی نواز کے حمایتی نہیں
ضیا الدین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اندازہ نہیں کہ یہ صحافی نواز شریف کے بھی مخالف رہے ہیں۔ "پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ میڈیا حکومتوں پر تنقید کرتا ہے۔ طلعت حسین اور دوسرے صحافی نواز شریف پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان صحافیوں کے خلاف یہ بھی شرمناک پروپیگنڈہ ہے کہ وہ نواز شریف سے پیسے لیتے ہیں۔ حامد میر، طلعت حسین، عاصمہ شیرازی اور کئی اور دیگر صحافیوں نے اپنی صحافتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر پیسہ کمایا ہے۔ انہوں نے کسی حکومت سے پیسہ نہیں لیا۔"