قذافی کی بدستور جاری مزاحمت، نیٹو شدید الجھن میں
7 اگست 2011فرانسیسی وزیر خارجہ الاں ژوپے نے اس بات کی تردید کی ہے کہ فرانس ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں پھنستا جا رہا ہے تاہم اُنہوں نے اس امر کا اعتراف کیا کہ ’ہم نے قذافی کی فورسز کی جانب سے کی جانے والی مزاحمت کا غالباً غلط اندازہ لگایا تھا‘۔
IRD ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ایک ماہر Jean-Yves Moisseron کے مطابق ’بین الاقوامی برادری چاہتی ہے کہ قذافی اقتدار چھوڑ دیں لیکن فورسز کی تقسیم اور علاقوں پر کنٹرول کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر قذافی کے بغیر تنازعے کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا‘۔ وہ کہتے ہیں:’’ان حالات میں اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ کچھ عرصے کے لیے یہ وہاں پھنسے رہیں گے اور یہ بات بھی یقینی نہیں ہے کہ قذافی اقتدار چھوڑ دے گا کیونکہ بین الاقوامی برادری اور خاص طور پر فرانس کے پاس کسی طویل جنگ کے لیے وسائل ہی نہیں ہیں۔‘‘
فرانسیسی وزیر دفاع Gerard Longuet نے جمعرات کو کہا تھا کہ ایئر کرافٹ کیریئر شارل ڈیگال کو مرمت و بحالی کے لیے اگلے ہفتے لیبیا مشن سے واپَس بلوایا جا رہا ہے لیکن یہ کہ فرانسیسی فضائی حملے جاری رہیں گے۔ اِدھر فرانسیسی بحریہ کی ویب سائٹ پر کہا گیا ہے کہ 22 مارچ سے لیبیا مشن پر گئے ہوئے اس جہاز کی بحالی کے کام پر ’کئی مہینے‘ لگ جائیں گے۔
واضح رہے کہ اٹلی پہلے ہی لیبیا مشن سے اپنا ایک ایئر کرافٹ کیریئر واپس بلا چکا ہے جبکہ ناروے نے بھی گزشتہ پیر کو اپنا آخری بمبار طیارہ اِس مشن سے واپس بلا لیا تھا، جس کے بدلے میں برطانیہ نے اپنے چار ٹورناڈو طیارے اِس مشن پر بھیج دیے تھے۔
فرانس اور برطانیہ بھی پہلے تو اصرار کر رہے تھے کہ قذافی کو ہر صورت جانا ہو گا لیکن گزشتہ مہینے اُن کے موقف میں نرمی آئی اور اُنہوں نے کہا کہ اگر کسی مذاکراتی حل کے تحت قذافی اقتدار چھوڑ دیں تو وہ لیبیا ہی میں رہ سکتے ہیں۔
تازہ خبروں کے مطابق لیبیا کے وزیر اعظم بغدادی محمودی نے کہا ہے کہ قذافی کی فورسز نے دارالحکومت طرابلس سے جنوب مغرب کی جانب واقع دفاعی لحاظ سے اہم شہر بیر غنم کو باغیوں سے واپس چھین لیا ہے۔ ابھی ایک روز پہلے باغیوں نے اس شہر پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا۔
پتہ چلا ہے کہ ہفتہ چھ اگست کو قطر کا ایک طیارہ باغیوں کے زیر قبضہ شہر مصراتہ میں کچھ دیر کے لیے رکا اور باغی جنگجوؤں کے لیے اسلحہ اُتارنے کے بعد فوراً ہی وہاں سے پرواز کر گیا۔ ہفتے کے روز نیٹو نے قذافی فورسز پر 115 فضائی حملے کیے۔
اسی دوران دارالحکومت طرابلس سے ملنے والی خبروں کے مطابق وہاں کے شہری بجلی اور پٹرول کی قلت سے سخت پریشان ہیں۔ اِدھر پاپائے روم بینیڈکٹ شانزدہم نے بھی آج اتوار کو اپنے ہفتہ وار پیغام میں کہا ہے کہ لیبیا کے تنازعے کو ہتھیاروں کی مدد سے حل نہیں کیا جا سکا ہے اور بہتر ہے کہ اب مذاکرات اور تعمیری مکالمت کی راہ اختیار کرتے ہوئے کوئی امن منصوبہ وضع کیا جائے۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: عاطف بلوچ