قطری بحران، ترک صدر ثالثی کے لیے خلیجی ریاستوں کے دورے پر
23 جولائی 2017ترکی خلیج فارس کی عرب ریاست قطر کا حلیف ہے۔ کویت اور امریکا کے بعد اب ترکی قطر کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ دو روز قبل جمعہ اکیس جولائی کو ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا تھا کہ قطر کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے مذاکراتی عمل کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
قطر میں انسدادِ دہشت گردی کے قوانین تبدیل
قطری تنازعے میں ترکی کا متحدہ عرب امارات کو ’انتباہ‘
قطر سعودی تنازعہ پاکستان کی معیشت مشکلات سے دوچار
اس بحران کے حل کے لیے رجب طیب ایردوآن آج سے سعودی عرب، کویت اور قطر کے دو روزہ دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔ وہ اس دورے کے دوران ان عرب ریاستوں کی اعلیٰ قیادتوں کے ساتھ ملاقاتیں کر کے تنازعے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ تقریباً دو ہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے بھی کویت میں قیام کر کے قطر اور سعودی عرب کے دورے کیے تھے۔ ایردوآن بھی اسی انداز میں رابطے کرنے کی کوشش کریں گے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ تنازعے کے حل کے لیے کوئی بڑا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ وہ قطر کے کھلے حلیف ہیں۔ وہ قطر کی زمینی ناکہ بندی کو انٹرنیشنل قوانین کے خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ قطر اور ترکی کئی برسوں سے مضبوط اقتصادی روابط رکھتے ہیں۔
تنازعے کا ایک نکتہ قطر میں ترک فوجیوں کی موجودگی اور اُس کے فوجی اڈے کو ختم کرنا ہے۔ زمینی ناکہ بندی کے دوران ترکی کی جانب سے قطر کو پھل، سبزیاں اور دوسری اشیائے ضرورت مسلسل فراہم کی جا رہی ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے گزشتہ ماہ قطر کے ساتھ یہ کہہ کر سفارتی تعلقات منسوخ کر دیے تھے کہ وہ خطے میں انتہا پسند رجحانات کے فروغ میں عملی کردار ادا کر رہا ہے۔ بعد میں تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات کی فہرست پیش کی گئی، جس میں سے سات مطالبات کو بعد میں حذف کر دیا گیا۔ قطر ان مطالبات کو غیر منطقی قرار دے کر مسترد کر چکا ہے۔