لائسنس جعلی یا مشکوک: 150 پی آئی اے پائلٹ گراؤنڈ کر دیے گئے
25 جون 2020پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے جمعرات پچیس جون کو خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ فیصلہ اس وجہ سے کیا گیا کہ حکومت کی طرف سے گزشتہ برس کرائی گئی ایک چھان بین کے نتیجے میں پتا یہ چلا تھا کہ اس فضائی کمپنی کے 434 پائلٹوں میں سے تقریباﹰ 150 کے لائسنس 'یا تو جعلی تھے یا مشکوک‘۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ پی آئی اے نے اپنے تقریباﹰ ایک تہائی پیشہ ور پائلٹوں کو گراؤنڈ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس سے قریب ایک ماہ قبل کراچی میں اسی ایئرلائن کی ایک مسافر پرواز ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گئی تھی۔ اس سانحے میں ایک ایئربس اے تین سو بیس میں سوار مسافروں اور عملے کے ارکان سمیت کُل 99 افراد میں سے 97 ہلاک ہو گئے تھے۔
کراچی کریش کی وجہ انسانی غلطی
بائیس مئی کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب اس فضائی سانحے کی چھان بین کے بعد جو ابتدائی رپورٹ تیار کی گئی تھی، اس کی تفصیلات سے ہوا بازی کے ملکی وزیر نے بدھ چوبیس جون کو اسلام آباد میں قومی پارلیمان کو آگاہ کیا تھا۔
شہری ہوا بازی کے وزیر غلام سرور خان نے بین الاقوامی ماہرین کے تعاون سے تیار کی گئی اس تفتیشی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پارلیمان کو بتایا تھا کہ یہ ایئر کریش 'انسانی غلطی‘ کا نتیجہ تھا۔ ایوی ایشن وزیر کے مطابق اس غلطی کے مرتکب اس طیارے کا پائلٹ اور متعلقہ ایئر ٹریفک کنٹرولر دونوں ہی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ طیارے کی لینڈنگ کی پہلی کوشش کے وقت پائلٹ اور اس کا معاون پائلٹ دونوں کورونا وائرس کی وبا سے متعلق گفتگو میں اس قدر مصروف تھے کہ ان کی پوری توجہ طیارے کی بحفاظت لینڈنگ کی طرف تھی ہی نہیں۔
کُل 260 سے زائد پاکستانی پائلٹوں کے لائسنس جعلی یا مشکوک
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ کے مطابق جب تک فی الفور گراؤنڈ کر دیے گئے پائلٹوں کے لائسنوں کے درست ہونے سے متعلق حتمی تسلی نہیں ہوتی، انہیں اس ادارے کا کوئی ہوائی جہاز اڑانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پی آئی اے کے ایسے پائلٹوں کے لائسنسوں سے متعلق یہ بات دراصل ایک روز قبل اس وقت بھی تقریباﹰ یقینی ہو گئی تھی، جب غلام سرور خان پارلیمان کو تفصیلات بتا رہے تھے۔
انہوں نے گزشتہ برس کرائی گئی سرکاری چھان بین کے نتائج بتاتے ہوئے پارلیمان میں کہا تھا، ''پاکستان میں 860 فعال پائلٹوں کے لائسنسوں کا جو جائزہ حکومت نے لیا، اس کے مطابق 260 سے زائد (تقریباﹰ 30 فیصد) پائلٹ ایسے تھے، جن کے فلائنگ لائسنس یا تو سرے سے ہی جعلی تھے یا پھر اس لیے مشکوک کہ انہوں نے پیشہ وارانہ امتحانات دیتے ہوئے بددیانتی کی تھی۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے پاس اس وقت کُل 31 قابل استعمال طیارے ہیں لیکن اس کے ملازمین کی تعداد تقریباﹰ 14,500 بنتی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں پی آئی اے خطے کی کامیاب ترین اور سب سے بڑی فضائی کمپنیوں میں سے ایک تھی۔ اس وقت لیکن اس قومی ادارے کو اپنی ساکھ میں بہت زیادہ تنزلی، پروازوں کی بار بار منسوخی، مسلسل تاخیر اور وسیع تر مالی خسارے جیسے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
م م / ش ح (اے ایف پی، روئٹرز)