بوٹ پالش کرنے والوں سے بات نہیں کرتا، عمران خان
30 اکتوبر 2022پاکستان تحریک انصاف کا 'حقیقی آزادی مارچ‘ تسیرے روز مریدکے سے گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہو چکا ہے۔ تیسرے روز سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کے بیان پر رد عمل میں کہا کہ وہ 'بوٹ پالش کرنے والوں سے بات‘ نہیں کرتے۔
انہوں نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''آپ نے بیان دیا ہے کہ میں نے آپ کو پیغام پہنچایا کہ ہم مل کر آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کرتے ہیں ۔۔۔ میں نے ان سے بات کی اور کرتا ہوں، جن سے ملنے آپ گاڑی کی ڈگی میں چھپ کر جایا کرتے تھے۔‘‘
عمران خان نے اپنے بیانات دہراتے ہوئے الزام عائد کیا کہ موجودہ حکومت 'امریکیوں کے گھٹنے دبا کر اور بوٹ پالش کر کے‘ اقتدار میں آئی۔
اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا، ''میں نے ان سے بات کی جو شہباز شریف کو اشاروں پر چلاتے ہیں۔ میں نے صرف یہ بات کی کہ صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں، کوئی دوسری بات نہیں کی۔‘‘
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران خان نے ایک کاروباری شخصیت کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ نئے فوجی سربراہ کی تعیناتی اور انتخابات کے بارے میں مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے پر مذاکرات کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ فوج کے سربراہ کی تعیناتی آئینی معاملہ ہے اور یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے۔ تاہم ان کے بقول انہوں نے کہا کہ وہ میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کے بارے میں بات کر سکتے تھے۔
مارچ ختم ہونے کی افواہیں کیوں؟
ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کرتی رہیں کہ عمران خان نے لاہور میں کسی 'اہم ملاقات‘ کے لیے مارچ کو طے شدہ مقام سے پہلے روک دیا تھا۔
تاہم عمران خان نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ لانگ مارچ رات کے وقت جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس لیے مریدکے ہی میں رکنے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے لکھا، ''پچھلے چھ ماہ سے میرا واحد مطالبہ صاف اور شفاف انتخابات کے فوری انعقاد کی تاریخ رہا ہے۔ اگر مذاکرات ہوئے بھی تو میرا واحد مطالبہ یہی رہے گا۔‘‘
عمران خان کے خلاف کارروائی کا عندیہ
پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ہفتے کے روز الزام عائد کیا تھا کہ عمران خان اپنے مارچ کو 'تشدد اور افراتفری‘ پھیلانے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق ہفتے کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر ایک آڈیو سنائی جس میں مبینہ طور پر عمران خان کے قریبی ساتھی علی امین گنڈاپور اور ایک نامعلوم شخص کے مابین 'اسلام آباد کے قریب ہتھیاروں کا انتظام‘ کرنے کے بارے میں گفتگو کی جا رہی تھی۔
تاہم اس ریکارڈنگ اور رانا ثنا اللہ کے دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کا مارچ پر امن رہے گا اور ان کا مقصد شہباز شریف حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنا ہے۔ تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ اگلے پارلیمانی انتخابات آئندہ برس شیڈول کے مطابق ہی ہوں گے۔
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ لانگ مارچ محض ایک بہانہ ہے اور اس کا اصل مقصد تقسیم پیدا کرنا اور ملک کو تباہ کرنا ہے۔
یہ الزام عائد کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت ملکی دارالحکومت اور اس کے رہائشیوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔ انہوں نے لانگ مارچ کے بارے میں کہا، ''جب ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے تو کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
رواں برس اپریل میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد سے عمران خان دعویٰ کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت امریکی سازش سے اقتدار میں آئی۔
تاہم شہباز شریف کی حکومت اور امریکہ ان دعووں کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔