لانگ مارچ کا آغاز اور عمران خان کی فوجی افسران پر کڑی تنقید
28 اکتوبر 2022لانگ مارچ میں ملی نغموں اور فیض احمد فیض کے ترانے سنائی دے رہے ہیں۔ لانگ مارچ میں شریک پاکستان تحریک انصاف کے کارکن موجودہ حکومت کے خلاف اور نئے انتخابات کے حق میں نعرے لگا رہے ہیں۔ لانگ مارچ کے راستوں کو پی ٹی آئی کے جھنڈوں اور بینروں سے سجایا گیا ہے۔ لانگ مارچ کی حفاظت کے لیے پولیس کے دستے بھی کارواں کے ساتھ محو سفر ہیں۔
بعض گاڑیوں پر خواتین، بچے اور فیملیز بھی سوار ہیں۔ اس کارواں کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہیں جبکہ ان کے کنٹینر پر پر اسد عمر، شاہ محمود قریشی، میاں محمود الرشید سمیت دیگر پارٹی رہنما بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اس قافلے میں چھ کنٹینر شامل ہیں جبکہ میڈیا کی گاڑیاں بھی اس کارواں کے ساتھ سفر کر رہی ہیں۔
اس رپورٹ کے فائل ہونے تک یہ کارواں لاہور کی فیروزپور روڈ تک پہنچا چکا تھا۔ پہلے دن لانگ مارچ لاہور میں ہی رہے گا۔ لبرٹی چوک سے شروع ہونے والا یہ لانگ مارچ اچھرہ، مزنگ، ایم او کالج، جنرل پوسٹ آفس چوک اور داتا دربار سے ہوتا ہوا آزادی چوک پہنچ رہا ہے۔
اس کارواں کا پہلا دن حال ہی میں ہلاک ہو جانے والے صحافی ارشد شریف کے نام کیا گیا ہے۔ بعض شرکاء کے ہاتھوں میں ارشد شریف کی تصاویر دکھائی دے رہی ہیں۔ لانگ مارچ کے آ غاز پر اپنی تقریر میں عمران خان نے پنجاب میں ارشد شریف شہید یونیورسٹی آف جرنلزم بنانے کا اعلان کیا۔
عمران خان کی 'جارحانہ تقریر‘
اس لانگ مارچ کے آغاز پر عمران خان نے پاک فوج کے سینئر افسران کے نام لے کر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور اسلام آباد میں متعین آئی ایس آئی کے دو افسران کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ''حقیقی آزادی مارچ‘‘ کے نام سے شروع کیے جانے والے اس لانگ مارچ کے آغاز پر خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ بہت کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ملکی ادارے کمزور ہوں۔
فوجی افسران کی پریس کانفرنس تبصروں اور تجزیوں کی زد میں
چیئرمین تحریک انصاف نے لاہور کے لبرٹی چوک میں اپنے خطاب میں کہا، '' میں تمام پاکستانیوں کو پیغام دے رہا ہوں کہ میرا یہ مارچ سیاست، الیکشن یا ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ اس کا صرف ایک مقصد ہے کہ میں اپنی قوم کو آزاد کروں اور اس کو ایک آزاد ملک بناؤں، اس ملک کے فیصلے لندن یا واشنگٹن میں نہ ہوں، اس ملک کے فیصلے پاکستان میں ہوں اور پاکستانیوں کے لیے ہوں‘‘۔
سابق وز یراعظم کا کہنا تھا، ''ہمیں کوئی یہ حکم نہ دے کہ ہم کسی اور کی جنگ میں شامل ہوں اور اپنے 80 ہزار لوگوں کی کسی اور ملک کے لیے قربانی دیں، ہندوستان تو روس سے سستا تیل لے سکتا ہے لیکن غلام پاکستانیوں کو اجازت نہیں، میں ایک آزاد ملک دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
انہوں نے اپنی تقریر میں بار بار ڈی جی آئی ایس آئی کو مخاطب کیا اور شہباز گل، اعظم سواتی اور صحافی جمیل فاروقی پر ہونے والے تشدد کا ذکر کیا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے کہا، '' جب اعظم سواتی کو اٹھایا گیا تو دنیا بھر کے اخباروں میں لکھا گیا کہ پاکستان کے 75 سالہ سینیٹر کو اٹھایا گیا اور اس پر تشدد کیا گیا کیونکہ اس نے فوج کے خلاف ٹویٹ کی، ساری دنیا میں پاکستان کی بے عزتی ہوئی، ہماری جمہوریت کا مذاق اڑا، فوج کو برا بھلا کہا گیا، فوج کو فائدہ نہیں نقصان پہنچا، یہ ہماری فوج ہے، ہمارا ملک ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک مضبوط ہو۔‘‘
پاکستانی خفیہ ادارے کے سربراہ نشانے پر
انہوں نے کہا، '' ڈی جی آئی ایس آئی کان کھول کر سن لو، میں جو چیزیں جانتا ہوں، میں اپنے ملک اور ادارے کی خاطر چپ ہوں کیونکہ میں اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا، میں نواز شریف کی طرح بھگوڑا نہیں ہوں، جو لندن جا کر فوج کو برا بھلا کہے، میں نے اس ملک سے جانا نہیں ہے، میرا جینا مرنا اسی ملک میں ہے۔ میں وہ پاکستان دیکھنا چاہتا ہوں جو ایک آزاد ملک ہو اور آزاد ملک کے لیے ایک طاقتور فوج ضروری ہے، تو ڈی جی آئی ایس آئی صاحب ہماری تعمیری تنقید ہے، جو ہم آپ کی بہتری کے لیے کرتے ہیں، ہم اپنے ملک کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔‘‘
عمران خان نے کہا، '' ڈی جی آئی ایس آئی صاحب میں نے آج تک کوئی غیر آئینی چیز نہیں کی، میں صاف اور شفاف الیکشن چاہتا ہوں اور صاف اور شفاف الیکشن میں میرے عوام فیصلہ کریں کہ اس ملک کی قیادت کون کرے گا؟ ہم آئین اور قانون کے مطابق چلیں گے، سپریم کورٹ نے ہمیں، جن علاقوں میں مارچ کی اجازت دی ہے، ہم صرف ان علاقوں میں جائیں گے، کوئی قانون نہیں توڑیں گے، ریڈ زون میں نہیں جائیں گے۔‘‘
عمران خان نے سپریم کورٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، '' 25 مئی کو آپ نے ہمارے جمہوری حق کا تحفظ نہیں کیا، ہمیں مارا گیا، لوگوں کو اٹھایا گیا، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جو ہمارا بنیادی حق تھا، اس کو تحفظ نہیں دیا گیا۔‘‘
سینئر تجزیہ کار نوید چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اصل میں دیکھنا تو یہ ہے کہ کیا اس لانگ مارچ کے نتیجے میں عمران خان موجودہ حکومت ختم کر سکتے ہیں یا پھر نئے الیکشن کروا سکتے ہیں اگر وہ یہ اہداف حاصل نہیں کر سکتے تو پھر فوج پر تنقید یا بہت بڑی موبلائزیشن سے انہیں کیا ملے گا یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔‘‘
پاکستانی صحافی اور ایک پروگرام کے میزبان وقار ملک کے مطابق عمران خان کا قافلہ رواں دواں ہے لیکن اسے فی الحال کوئی بہت بڑا یا شاندار لانگ مارچ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے یا آئندہ چند روز میں اس لانگ مارچ میں شامل لوگوں کا ولولہ اور جوش بڑھ جائے۔