لاک ڈاؤن اٹھایا جائے یا نہیں؟ یورپی حکومتیں مخمصے میں
14 اپریل 2020عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے یورپی ممالک میں وائرس کی روک تھام میں بہتری کا خیر مقدم کیا ہے لیکن خبردار کیا ہے کہ جلد بازی میں پابندیاں اٹھانے سے کیسز میں دوبارہ زبردست اضافہ ہو سکتا ہے۔
جرمنی میں موجودہ لاک ڈاؤن انیس اپریل تک لاگو ہے۔ بعض سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر کاروبار جلد نہ کھولا گیا تو ملک کسادبازاری کا شکار ہو جائے گا۔
ماہرین کا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ انیس اپریل سے شہریوں کی نقل و حرکت میں نرمی شروع کر سکتی ہے۔ جرمن نیشنل اکیڈمی کے مطابق نرمی بتدریج اور مرحلہ وار ہونی چاہیے اور اس دوران شہریوں کو صفائی ستھرائی اور ماسک پہننے کا پابند کرنا چاہیے۔
پہلے مرحلے میں آہستہ آہستہ کچھ اسکول، سرکاری دفاتر، دوکانیں اور ریستوران کھولے جا سکتے ہیں۔ لیکن ماہرین نے پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کھولنے میں جلد بازی سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔
جرمنی میں رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق، لوگوں نے مجموعی طور پر لاک ڈاؤن سے متعلق حکومتی ہدایات اور پابندیوں پر عمل کیا۔ تاہم گزرتے وقت کے ساتھ خلاف ورزی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔
آگے کیا ہونا چاہیے؟ اس کا فیصلہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل ملک کی سولہ ریاستوں کے سربراہان سے بدھ کو آن لائن مشاورت کے بعد کریں گی۔
جرمنی میں کورونا وائرس کے کوئی ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے اور تین ہزار ایک سو سے زائد اموات ہوئی ہیں۔
ادھر جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا میں آج منگل سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا مرحلہ وار آغاز شروع کر دیا گیا ہے اور چھوٹی دوکانیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں۔ حکومت نے لوگوں کو غیرضروری طور پر باہر نکلنے سے منع کیا ہے اور سپر مارکیٹ یا فارمیسی جانے والوں کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دیا ہے۔ اسپین نے بھی بعض دوکانیں اور کاروبار کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ ڈنمارک میں پہلے مرحلے میں چھوٹے بچوں کے اسکول کھولے جا رہے ہیں۔ کورونا وائرس سے یورپ میں سب سے زیادہ متاثر ملک اٹلی نے بہت محدود پیمانے پر بعض کمپنیوں کو دفاتر کھولنے کی اجازت دی ہے۔
لیکن ایسے میں فرانس نے لاک ڈاؤن کو مزید چار ہفتوں کے لیے گیارہ مئی تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں فرانسیسی صدر نے کہا کہ لاک ڈاؤن سے کورونا کا پھیلاؤ روکنے میں مدد ملی ہے لیکن ابھی شکست نہیں دی جاسکی۔
ش ج، ع ق (ایجنسیاں)