لاہور: خود کش حملوں کے ذمہ دار عناصر کی تلاش جاری
2 جولائی 2010داتا گنج بخش کے نام سے جانی جانے والی بر صغیر کی ممتاز روحانی اور مذہبی شخصیت سید علی ہجویری کے مزار پر کئے گئے خود کش حملوں نے پاکستان بھر میں دکھ اور سوگ کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
سید علی ہجویر ی کا مزار بر صغیر کے مسلمانوں کی عقیدتوں کا مرکز ہے ۔ پچھلے آٹھ سو سال کے دوران اس خطے میں مسلمانوں کے علاوہ سکھوں اور انگریزوں کی حکومتیں بھی رہی ہیں۔ یہاں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور تقسیم ہند کے دور میں لڑائیاں بھی لڑی گئیں۔ لیکن گزشتہ آٹھ صدیوں میں کبھی بھی اس مزار کو حملوں کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔
پنجاب میں کسی صوفی بزرگ کے مزار پر ہونے والا یہ خونریز دہشت گردی کا پہلا واقعہ ہے، جس کی جمعے کی رات تک عسکریت پسندوں یا دہشت گردوں کے کسی بھی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔
ممتاز تجزیہ نگار ندیر ناجی کہتے ہیں کہ عام طور پر دہشت گرد تنظیمیں سیاسی اہداف کے حصول کے لئے کارروائیاں کرتی ہیں۔ لیکن ان کے خیال میں داتا دربار پر ہونے والا دہشت گردی کا واقعہ خالصتاً ایک مذہبی واقعہ ہے، جس میں عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے وہ مذہبی شدت پسند عناصر ملوث ہو سکتے ہیں، جو ایک خاص مسلک کے ماننے والے ہیں اور جو عقیدت مندوں کی طرف سے قبروں اور مزاروں پر جانے کے شدید مخالف ہیں۔
’’یہ لوگ صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور باقی مسالک کے ماننے والوں کو غیر مسلم سمجتھے ہیں۔‘‘ نذیر ناجی کے مطابق یہ طبقہ جہاد کی آڑ میں ضیا الحق دور میں پاکستان آیا اور دوسرے مسالک کے لوگوں کو قتل کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ نذیر ناجی کے بقول علی ہجویری کے مزار پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو ملک میں جاری دہشت گردی کے دوسرے واقعات سے جوڑنا مناسب نہیں ہو گا۔
اس تجزیہ کار نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں یہ بھی کہا کہ یہ ’’ایک خطرناک رجحان ہے، جو آنے والے دنوں میں دوسرے مزاروں تک بھی پہنچ سکتا ہے۔‘‘ نذیر ناجی نے خبردار کیا کہ بھارت میں موجود مذہبی شخصیات کے مزارات بھی دہشت گردی کے اس رجحان کی زد میں آ سکتے ہیں۔ ’’اس لئے اس فرقے کے لوگوں کو تلاش کرنا ہو گا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا نہایت ضروری ہے۔‘‘
نوجوان دانشور اور کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی ایک پیچیدہ جنگ لڑی جا رہی ہے اور سانحہء داتا دربار کے مجرموں کے حوالے سے قطعیت کے ساتھ کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ تاہم انہوں نے تصدیق کی القاعدہ میں شامل دہشت گردوں کا ایک حصہ ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جو تکفیری نقطہ نظر پر یقین رکھتے ہیں۔
دہشت گردی سے متعلقہ امور پرنظررکھنے والے ایک اور تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید خان کا اصرارہے کہ داتا دربار پر ہونے والے خود کش حملوں میں کالعدم فرقہ وارانہ جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان دہشت گرد ملوث ہو سکتے ہیں،جو شمالی وزیر ستان کے طالبان سے رابطے میں ہیں۔
لاہور میں داتا گنج بخش کے مزار پر ہونے والی دہشت گردی کے حوالے سے بعض لوگ لشکر جھنگوی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں جبکہ بعض تجزیہ نگار خونریز شدت پسندی کی اس واردات میں ممکنہ طور پر غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دے رہے۔
ان حملوں کی تفتیش کرنے والے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود کش حملہ کرنے والے ایک دہشت گرد کو شناخت کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق خود بھی ہلاک ہو جانے والے اس عسکریت پسند کا نام عثمان ولد یاسین تھا اور وہ لاہور کے نواحی علاقے برکی کا رہنے والا تھا۔
اس وقت لاہور پولیس کے اہلکار شہر کے نواحی سرحدی علاقوں میں ایک بڑا آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسے سرکاری دعوے آنے والے دنوں اور ہفتوں میں کس حد تک حقیقت کا روپ دھارتے ہیں۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عصمت جبیں