1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور: پسند کی شادی پر خاتون کو اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا

ندیم گِل28 مئی 2014

پاکستان کے شہر لاہور میں ہائی کورٹ کے باہر ایک حاملہ خاتون کو اس کے اپنے ہی گھر والوں نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔ اس خاتون نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی، جس کا اُس کے اہلِ خانہ کو سخت رنج تھا۔

https://p.dw.com/p/1C7vn
تصویر: picture-alliance/dpa

یہ واقعہ منگل کو لاہور ہائی کورٹ کے باہر پیش آیا۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پولیس کے ایک تفتیش کار رانا مجاہد کا کہنا ہے کہ تقریباﹰ بیس افراد نے نوجوان خاتون پر دِن دیہاڑے اینٹوں اور لاٹھیوں سے حملہ کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ حملہ آوروں میں لڑکی کا باپ اور بھائی بھی شامل تھے جب کہ وہاں ایک بڑا ہجوم بھی جمع تھا۔

پاکستان میں ہر سال سینکڑوں خواتین کو ’غیرت کے نام‘ پر ان کے شوہر یا دیگر رشتہ دار قتل کر دیتے ہیں۔ وہ انہیں ناجائز جنسی تعلقات کا الزام دیتے ہیں۔ تاہم سرعام سنگسار کرنے کا واقعہ شاذ و نادر ہی پیش آتا ہے۔

مجاہد نے بتایا کہ لڑکی کے والد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ اس ’سنگین جرم‘ میں حصہ لینے والے دیگر لوگوں کی گرفتاری کے لیے کارروائی جاری ہیں۔

پولیس اہلکار نسیم بٹ نے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والی خاتون کی عمر پچیس برس تھی اور اس کا نام فرزانہ پروین تھا۔ بھٹ نے بتایا کہ پروین نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف محمد اقبال سے شادی کر لی تھی۔

Pakistan Symbolbild Protest Frau Recht Gewalt Ehe Scheidung
گزشتہ برس پاکستان میں آٹھ سو سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستانتصویر: picture alliance/Photoshot

خاتون کے وکیل مصطفیٰ کھرل کا کہنا ہے کہ اس کے والد نے اقبال کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کروا رکھا تھا اور یہ جوڑا اس مقدمے کے خلاف لڑ رہا تھا۔ کھرل نے تصدیق کی کہ پروین تین ماہ کے حمل سے تھی۔

پاکستان میں قدامت پسند خاندانوں میں والدین کی مرضی سے شادی کرنا ایک رواج ہے اور محبت کی شادیوں کو برا تصور کیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے گروپ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ برس تقریباﹰ 869 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔

تاہم منگل کو لاہور میں پیش آنے والے واقعے نے خواتین پر تشدد کے واقعات کی خبر رکھنے والوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ معروف وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن ضیا اعوان کا کہنا ہے: ’’میں نے ایسا کوئی واقعہ نہیں سنا کہ کسی عورت کو سنگسار کر دیا گیا ہو اور انتہائی شرمناک اور پریشان کن بات تو یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک عدالت کے سامنے پیش آیا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عورتوں پر تشدد کرنے والوں کو اکثر یا تو رہا کر دیا جاتا ہے یا نرم سزا دی جاتی ہے جس کی وجہ پولیس کی ناقص کارکردگی اور مقدمات میں پائے جانے والے نقائص ہوتے ہیں۔