لداخ میں تعینات بھارتی فوجیوں کے لیے امریکی گرم کپڑے
5 نومبر 2020چین اور بھارت کے درمیان لداخ کے سرحدی علاقوں میں کشیدگی اب بھی میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اسی وجہ سے بھارتی فوج نے موسم سرما میں ایل او سی پر کڑاکے کی سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا سے خاص قسم کے گرم کپڑے مہیا کرنے کی اپیل کی تھی۔ بھارتی فوج نے تصدیق کی ہے کہ امریکا سے اس کے پاس گرم کپڑوں کی پہلی کھیپ پہنچ گئی ہے۔
وزارت دفاع نے اس سلسلے میں بھارتی میڈیا کو بعض تصاویر جاری کی ہیں جس میں لداخ میں تعینات ایک بھارتی فوجی کو سفید رنگ کے اس امریکی لباس میں دکھایا گیا ہے جو خاص طور پر شدید ترین سردی سے بچنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ فوجی کے ہاتھ میں جدید قسم کی ایک خودکار رائفل بھی ہے۔ فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایل او سی پر تعینات فوجیوں کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے رہن سہن کا بھی بہتر بند و بست کیا ہے۔
فوج کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج نے سخت ترین سردی کے موسم کے لیے خاص طور پر تیار کیے گئے امریکی ساخت کے ایسے 60 ہزار یونیفارم کا حکم دیا تھا۔ ''یہ مشرقی لداخ میں ایل اوسی اور مغربی سرحد سیاچن پر تعینات فوجیوں کے لیے ہیں۔''
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اب تک فوج کو ایسے 20 ہزار کپڑوں کی پہلی کھیپ ہی موصول ہوئی اور فوجی ان کا استعمال بھی کرنے لگے ہیں۔ بیان کے مطابق ان علاقوں میں ایل او سی پر چین سے نمٹنے کے لیے تقریباً 90 ہزار فوجی تعینات ہیں اور اسی لیے اس بار 30 ہزار ایسے اضافی کپڑوں کی ضرورت تھی۔
لداخ کے بلند ترین اور بنجر پہاڑوں کے درمیان واقع لائن آف ایکچؤل کنٹرول کا علاقہ عموماً کافی سرد رہتا ہے۔ سردیوں میں یہاں درجہ حرارت منفی 40 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ جس سے ان کی قوت بصارت پر بھی اثر پڑتا ہے۔حکام کے مطابق ان کپڑوں کی مدد سے بھارتی فوجی نہ صرف موسم کا مقابلہ کرسکیں گے بلکہ وہ دور تک دیکھ بھی سکیں گے۔
عام طور پر موسم سرما میں بھارت اور چین کے فوجی ایل او سی پر گشت ترک کر کے محفوظ مقامات پر منتقل ہو جایا کرتے تھے تاہم اس برس اپریل کے مہینے میں دونوں کے درمیان جو کشیدگی شروع ہوئی وہ متعدد دور کی فوجی اور سفارتی سطح کی بات چیت کے بعد بھی برقرار ہے۔ وسط جون میں دونوں کے فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی تھیں جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی بھی ہوئے تھے۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں بھارت اور امریکا نے اپنے باہمی تعلقات کو ایک نئی جہت دیتے ہوئے ایک اہم دفاعی معاہدے 'بیسک ایکسچنج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بی ای سی اے)‘ پر دستخط کیے تھے۔ بھارت اور چین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن(ایل اے سی) پر پچھلے چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری فوجی کشیدگی کے تناظر میں اس معاہدے کو کافی اہم سمجھا جارہا ہے۔
اس کے لیے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور اوروزیر دفاع ایسپردہلی آئے تھے اور اسی دوران بھارت نے لداخ کے لیے گرم کپڑوں کی فراہمی میں جلدی کرنے کو کہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق امریکی وفد کی واپسی کے فوری بعد انہیں بھارت روانہ کر دیا گیا تھا۔
کیا لداخ میں موسم سرما میں جنگ ہوسکتی ہے؟
بھارت اور چین کے درمیان لداخ میں ایل اے سی کے حوالے سے شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد پر آمنے سامنے کھڑی ہوکر اپنی اپنی پوزیشنوں کا دفاع کر رہی ہیں۔ اس صورت حال سے سرحدی علاقوں میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھارت چین کے ساتھ سفارتی اور فوجی سطح پر مذاکرات میں مشغول ہے تاہم کئی دور کی بات چیت کے بعد بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔
چند ماہ قبل ہی بھارتی فوج کے ایک سبکدوش جنرل نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا تھا کہ بھارت اور چین کے درمیان کئی دور کی بات چیت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اس لیے بھارت جنگ کی بھی تیاری کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت فعال طریقے سے مذاکرات سے اسے حل کرنے کی کوشش میں ہے لیکن ایسا لگتا کہ اب وہ عسکری طور پر بھی اس کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
ریٹائرڈ جنرل اتل بھٹا چاریہ نے بتایا تھا کہ ''تمام قرائن و قیاس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رواں برس کے اختتام تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ موسم سرما بھارت کے لیے بہت اہم ہوگا اور لداخ میں ٹھنڈ کے موسم میں ہی بھارت جنگ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔''
اس دوران فرانسیسی ساخت کے رفائل جنگی طیاروں کی دوسری کھیپ بھی بھارت پہنچ گئی ہے۔ گزشتہ روز تین رفائل طیارے جام نگر پہنچے تھے جنہیں آج انبالہ ایربیس پر لایا جا رہا ہے۔ پہلی قسط میں پانچ جہاز بھارت پہنچے تھے جنہیں 10 ستمبر کو بھارتی فضائیہ میں شامل کیا گیا تھا۔
بھارت کا کہنا ہے کہ آج کل سرحد پر جو صورت حال ہے اس تناظر میں فرانسیسی ساخت کے رفائل جنگی طیاروں کی بڑی اہمیت ہے اور یہ جنگ کی صورت میں گیم چینجر ثابت ہوں گے۔