’لوپریڈ‘ بھگدڑ: عوامی غصہ، میئر کے استعفے کا مطالبہ
26 جولائی 2010جرمنی کے سب سے گنجان آباد صوبے نارتھ رائن ويسٹ فيليا کے صنعتی شہر ڈوئسبرگ ميں 24 جولائی کی شام ٹینکو موسیقی کے دنیا کے سب سے بڑے میلے کے دوران بھگدڑ مچ جانے کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ پوليس حکام کا کہنا ہے کہ يہ 11 مرد اور آٹھ عورتيں اس وقت ہلاک ہوئے جب وہ اس میلے کی گراؤنڈ تک لے جانے والے واحد راستے، ايک 100ميٹر طويل، تنگ سرنگ ميں بھگدڑ مچ جانے کے بعد کچل جانے سے بچنے کے لئے سرنگ کی ديواروں پر چڑھ رہے تھے، جس دوران وہ نيچے گر گئے تھے۔
اس سانحے کے بعدآج شہر ڈوئسبرگ اور ارد گرد کے علاقے ميں اظہار غم کے طور پر تمام پرچم نصف بلندی پر لہرا رہے تھے۔ جرمن نژاد پاپائے روم بينيڈکٹ شانزدہم اور جرمن چانسلر انگیلا ميرکل نے اس سانحے پر شديد صدمے کا اظہار کيا۔ چانسلر ميرکل نے اسے ايک بہت ہی خوفناک اور افسوسناک دن قرار ديا اور اس المناک واقعے کی بہت کڑی تحقيقات کا مطالبہ کيا۔
سرنگ کے دروازے پر موم بتياں جلائی گئی ہيں اور ايک بورڈ پر سينکڑوں افراد نے دستخط کئے ہيں۔ اس پر لو پريڈ کے منتظمين کے نام بہت غصے والے پيغامات بھی درج ہيں۔ انہی ميں سے ايک پیغام ہے: ’’يہ ميلہ اس جگہ پر ہرگز نہيں ہونا چاہئے تھا۔آپ کو شرم آنی چاہئے۔‘‘
ڈوئسبرگ کے قريبی شہر کولون سے شائع ہونے والے روزنامے Stadt-Anzeiger نے لکھا ہے کہ منتظمين کو اکتوبر سن 2009 ميں تحريری طور پر اس سے خبردار کر ديا گيا تھا کہ ميلے کے لئے منتخب کی گئی جگہ اتنے بڑے مجمع کے لئے ناکافی تھی، ليکن اس تنبيہ پر کوئی دھيان نہيں ديا گيا۔ جرمنی کے معروف ہفت روزہ جریدے ’ڈیئر شپیگل‘ نے اپنی آن لائن اشاعت ميں لکھا ہے کہ لو پريڈ کی اجازت صرف ڈھائی لاکھ افراد کے لئے دی گئی تھی، ليکن اس ميں چودہ لاکھ شائقين شريک ہوئے۔
حادثے کے دو روز بعد ڈوئسبرگ کے ميئر اڈولف زاؤرلينڈ پر مستعفی ہو جانے کے لئے شديد دباؤ ہے۔ بتايا جاتا ہے کہ حکام کو دنیا کے اس سب سے بڑے ٹيکنو ميوزک فیسٹیول کے انعقاد کے لئے شہر ڈوئسبرگ کے چھوٹے اور ناموزوں ہونے کے بارے ميں تنبيہات کی جا چکی تھيں۔ علاقے کے ايک معروف روزنامے نوئے روہر سائٹنگ کے مطابق اگرچہ تحقيات ابھی جاری ہيں ليکن اتنا يقين سے کہا جا سکتا ہے کہ شہری حکام مکمل طور پر ناکام رہے ہيں۔
اس اخبار نے اپنے اداريے ميں لکھا ہے: ’’حادثے کی شام بھی، جب شديد زخمی ہسپتالوں ميں دم توڑ رہے تھے، حکام بزدلی سے بہانے بازياں کر رہے تھے اور اب بھی اپنی طرف سے کئے گئے حفاظتی انتظامات کا دفاع کر رہے تھے۔‘‘ اخبار نے مير زاؤرلينڈ کے اس بيان پر بھی تنقيد کی کہ حادثے کی ذمہ داری خود ميلے کے شرکاء پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ڈوئسبرگ کے مير زاؤرلينڈ نے اتوار کو ايک پريس کانفرنس ميں يہ دعویٰ بھی کيا تھا کہ وہاں سکيورٹی کا نظام بہت ٹھوس تھا۔
ہفتے کی شام لو پريڈ میں بھگدڑ کے نتیجے ميں ہلاک ہونے والوں کی عمريں 20 اور 40 برس کے درميان تھيں اور ان ميں آسٹريليا، بوسنيا،سپين، ہالينڈ، اٹلی اور چين سے تعلق رکھنے والے سات غير ملکی بھی شامل تھے۔ اس میلے میں شریک نيوزی لينڈ کی 18 سالہ آنيکے نے کہا: ’’ميں نے سرنگ ميں مُردوں کو ديکھا اور زندہ بچ جانے والوں کو بھی۔ بہت سے لوگ رو رہے تھے۔‘‘
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک