لیبیا نے 37 اسلامی انتہاپسندوں کو رہا کر دیا
1 ستمبر 2010تریپولی کی ابو سلیم جیل کے باہر لگائے گئے ایک ٹینٹ رہائی کے بعد لائے جانے والوں میں سے اکثریت جوانوں کی تھی جنہوں نے سر پر روایتی سفید پگڑیاں باندھ رکھی تھیں۔ رہا ہونے والوں میں اسامہ بن لادن کا ایک سابق ڈرائیور ناصر تیلامون کے علاوہ ابوسفیان بن گوئیمو بھی شامل ہے جو گوانتاناموبے میں زیر حراست رہا اور سال 2007ء میں اسے لیبیا کے حوالے کیا گیا۔
جیل انتظامیہ کے مطابق ان رہا کئے جانے والے انتہاپسندوں میں سے اکثر کا تعلق جہادی تنظیموں سے تھا جنہوں نے القاعدہ کے ساتھ عراق اور شمالی افریقہ میں کارروائیوں میں حصہ لیا تھا۔
ان افراد کی رہائی لیبیا کے صدر معمر قدافی کے بیٹے سیف الاسلام کی انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کی کوششوں میں ہوئی ہے۔ قزافی فاؤنڈیشن کے ایک ترجمان کے مطابق مزید ڈیڑھ سو قیدی بھی جلد رہا کئے جائیں گے۔ اس فاؤنڈیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان قیدیوں نے ایک ایسے بحالی پروگرام میں حصہ لیا تھا جس کا مقصد ان قیدیوں میں تشدد پسندانہ رجحان ختم کرکے ان کو دوبارہ لیبیا کے معاشرے میں ضم کرنا تھا۔
قزافی فاؤنڈیشن 2007ء سے اسلامی انتہاپسندوں کو تشدد ترک کرکے معاشرے میں ضم کرنے کے پروگرام پر کام کر رہی ہے، اور انہی کاوشوں کے نتیجے میں رواں برس مارچ میں 214 ایسے قیدی رہا ہوئے تھے۔
مارچ میں رہا ہونے والے قیدیو ں میں سے 34 کا تعلق LIFG سے تھا جن میں اس تنظیم کے تین رہمنا عبدالحکیم بیلحج، تنظیم کے عسکری سربراہ خالد شرف اور فکری رہنما سمیع سعدی بھی شامل تھے۔
LIFG نے ویسے تو افغانستان میں 1980ء کی دہائی کے دوران سوویت جنگ میں بھی حصہ لیا تھا، مگر 1995ء میں یہ تنظیم اس وقت منظرِعام پر آئی جب اس نے اعلان کیا کہ اس کا مقصد کرنل قدافی کی حکومت کو گرا کر ملک میں انتہاپسند اسلامی حکومت لانا ہے۔
سال 2007ء میں القاعدہ نے اعلان کیا تھا کہ LIFG نے اس جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور پھر یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسامہ بن کادن کا قریبی ساتھی ابو لیث اللیبی LIFG کو سینٹرل ایشیا سے چلارہا تھا۔
ابو لیث پاکستان کے شمالی علاقوں میں سال 2008ء کے دوران ہونے والے ایک میزائل حملے میں مارا گیا تھا۔ پچھلے برس قزافی فاؤنڈیشن نے اعلان کیا تھا LIFG نے القاعدہ سے اپنے تعلقات ترک کردیے ہیں۔
رپورٹ : سمن جعفری
ادارت : افسر اعوان