’’ لیبیا پر حملے کی حمایت بھی اور مخالفت بھی‘‘
20 مارچ 2011’’دنیا اب جبرکو مزید برداشت نہیں کرے گی‘‘ اس موٹو کے تحت لیبیا پرکیے گئے حملے کی کئی عرب ملکوں میں تائید کی جا رہی ہے۔ تاہم خطے کے کئی ممالک ایسے بھی ہیں، جن کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے کہ مغربی ممالک کا عرب دنیا کے معاملات میں دخل اندازی کا ایک راستہ کھل گیا ہے۔ معمر قذافی کو اپنے 42 سالہ دور حکومت میں اس طرح کی صورتحال کا سامنا پہلے کبھی نہیں کرنا پڑا۔
شام، بحرین اور یمن میں بھی حالات کچھ اسی طرح کے ہیں اور وہاں بھی عوام اپنی حکومتوں کے خلاف آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے خطے کے دیگر ممالک میں جاری حکومت مخالف تحریکوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ یمن کے دارالحکومت صنعاء سے تعلق رکھنے والے علی عبدالرحمن کا کہنا ہے کہ لیبیا کا آپریشن آمروں کے لیے ایک کھلا پیغام ہےکہ ان کا وقت پورا ہو چکا ہے۔
یمن میں نوجوانوں کی تنظیم کے سرگرم کارکن محمد الشرقی کے بقول نو فلائی زون کا قیام دیر سے کیا گیا تاہم یہ ایک مثبت قدم ہے۔’’ ہمیں خوشی ہوتی کہ اگر عرب ممالک لیبیا کے خلاف یہ قدم اٹھاتے۔ بہرحال اس کا یمن کی صورتحال پر بھی اچھا اثر پڑے گا کیونکہ حکمرانوں پر یہ واضح ہو گیا ہے کہ جبر و زیادتی پر عالمی برادری خاموش نہیں بیٹھے گی۔‘‘
شام میں صدر بشارالاسد کے لیے بھی حالات کچھ خاص بہتر نہیں ہیں۔ دمشق کے ایک کمپیوٹر ماہر کے بقول وہ نو فلائی زون کے قیام کے تو حق میں ہیں لیکن بمباری کے خلاف ہیں۔ ان کے بقول ’’یہ تصاویر دیکھ کر انہیں عراق یاد آ گیا۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ اور آزادی کی بات کر رہے ہیں۔
لبنان میں حزب اللہ کے قائد سید نصر اللہ نے لیبیا کے عوام کو جنگ میں دھکیلنے پر قذافی کو تنقید کا نشانہ بنایا تاہم ساتھ ہی انہوں نے عرب رہنماؤں پر بھی شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا، ’’افسوس کی بات ہے کہ عرب اور مسلم رہنما اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں اور انہوں نے لیبیا میں بیرونی قوتوں کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اب حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔‘‘ سعودی عرب نے عالمی برادری کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کی بڑھ چڑھ کر حمایت کی ہے۔ سعودی مبصر جمال خشوگی نے کہا کہ لیبیا کے عوام ایک انمول مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: عاطف توقیر