لیبیا کے خلاف آپریشن میں تیزی لائی جائے، برطانیہ اور فرانس کا مطالبہ
12 اپریل 2011مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی جانب سے لیبیا کے حکمران معمر قذافی اور ان کی فوج کے خلاف کارروائی شروع ہوئے دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ لیبیا میں قذافی حکومت کے باغیوں کی طرف سے نیٹو کے فضائی حملوں کی سست رفتاری پر شدید تنقید کی جاتی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چند دنوں سے ان حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ جمعہ، آٹھ اپریل سے اب تک 28 ملکی نیٹو اتحاد کے فضائی حملوں میں باغیوں کے زیر قبضہ شہروں مصراتہ اور اجدابیہ کی طرف بڑھنے والے درجنوں ٹینکوں اور دیگر فوجی گاڑیوں کو تباہ کیا جاچکا ہے۔
لکسمبرگ میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچنے والے برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ کا کہنا تھا: ’’ ہمیں نیٹو میں اپنی کوششیں بڑھانی چاہییں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے گزشتہ ہفتے مزید ایسے طیارے اس آپریشن کے لیے فراہم کیے جو لیبیا کی عوام کے لیے خطرہ بننے والے زمینی ٹارگٹس کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔‘‘ برطانوی وزیرخارجہ نے اس حوالے سے مزید کوششوں پر زور دیتے ہوئے دیگر ممالک کو بھی ایسے اقدامات کرنے کی دعوت دی۔
اس موقع پر برطانوی وزیرخارجہ ولیم ہیگ نے اپنی امریکی ہم منصب ہلیری کلنٹن کے اس مطالبے میں اپنی آواز بھی شامل کی کہ معمر قذافی لیبیا کی حکمرانی سے دستبردار ہوجائیں:’’ظاہر ہے لیبیا کے پرامن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ کرنل قذافی اپنا عہدہ چھوڑ دیں‘‘۔
لکسمبرگ میں ہونے والے اجلاس سے قبل جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹرویلے نے اپنی حکومت کے اس عزم کو دہرایا کہ لیبیا میں امدادی کاموں کے حوالے سے جرمنی اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا: ’’ ہم لیبیا کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں شریک نہیں ہوں گے۔ لیکن جہاں تک بات ہے اس جنگ کے شکار لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی، طبی سہولیات فراہم کرنے کی یا پھر اس تنازعے کے باعث بے گھر ہونے والے مہاجرین کی مدد کی تو پھر ہم اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے لیبیا کو نوفلائی زون قرار دینے کی قرارداد منظور کیے جانے کے بعد امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے 19 مارچ کو لیبیا کی حکومت کے خلاف فضائی آپریشن کا آغاز کیا۔ تاہم امریکہ نے گزشتہ ہفتے لیبیا کے خلاف جاری آپریشن میں شریک اپنے لڑاکا طیارے واپس بلا لیے اور اس کارروائی میں اپنا کردار محض مددگار کے طور پر محدود کرلیا۔
اُدھر فرانسیسی وزیرخارجہ الاں ماری یُپے نے لکسمبرگ روانگی سے قبل ملکی ریڈیو پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:’’ نیٹو کو اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنا چاہیے، جوکہ وہ ابھی تک نہیں کر رہا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں اس معاملے کو اٹھائیں گے۔
ایک طرف تو فرانس اور برطانیہ کی طرف سے لیبیا کے خلاف جاری آپریشن میں شدت لانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے تو دوسری جانب افریقی یونین لیبیا میں جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ افریقی یونین کی طرف سے پیش کردہ منصوبے کو معمر قذافی نے تو قبول کرلیا مگر بن غازی میں موجود باغی قیادت نے یہ کہتے ہوئے اس منصوبے کو رد کر دیا کہ انہیں قذافی کے اقتدار چھوڑنے کے علاوہ کوئی اور پیشکش قبول نہیں ہے۔
نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے پیر کے روز اعلان کیا کہ جب تک لیبیا کی عوام کو خطرات لاحق ہیں، فضائی آپریشن جاری رہے گا۔
رپورٹ: افسراعوان
ادارت: شامل شمس