لیبیا کے کئی شہر باغیوں کے قبضے میں، تنازعے کے پر امن حل کا امکان
27 مارچ 2011طرابلس اور قاہرہ سے ملنے والی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ یہ حکومت مخالف باغی اب تک تیل کی صنعت کے لیے انتہائی اہم بندرگاہی شہر بریقہ کے بعد راس لانُوف اور بن جواد کے شہروں پر بھی کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔
عرب ٹیلی وژن چینل الجزیرہ نے بتایا ہے کہ باغیوں نے عقائلہ کے شہر کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد اب قذافی کے آبائی شہر سرت پر نظریں جما رکھی ہیں۔ لیبیا کا یہ شہر ملکی دارالحکومت طرابلس سے قریب چار سو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ہے۔
الجزیرہ ٹیلی وژن کے علاوہ طرابلس سے موصولہ رپورٹوں میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ قذافی کے مخالف باغیوں کا ارادہ ہے کہ وہ سرت پر قبضے کے بعد مصراتہ کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہیں گے۔ مصراتہ لیبیا کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے، جو ان باغیوں کے بقول ان کے لیے دارالحکومت طرابلس تک رسائی کے لیے گیٹ وے کا کام دے سکتا ہے۔
دیگر رپورٹوں کے مطابق لیبیا میں باغی ہفتہ کے روز اجدابیا پر قبضے کے بعد اب مغرب کی سمت آگے بڑھتے جا رہے ہیں اور اس علاقے میں قذافی کے حامی دستے اب مسلسل پسپائی پر مجبور ہیں۔
اسی دوران آج اتوار کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے رہنماؤں کا ایک اہم اجلاس بھی ہو رہا ہے جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا اقوام متحدہ کی قرارداد کے بعد شروع کیے جانے والے لیبیا کے خلاف فوجی آپریشن کی کمان مغربی ملکوں سے باقاعدہ طور پر اس اتحاد کو منتقل کی جانی چاہیے۔ لیبیا کے خلاف یہ آپریشن سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کی روشنی میں وہاں نو فلائی زون کو یقینی بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
ادھر لیبیا کے خلاف فضائی آپریشن کے آٹھویں دن امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے آج کہا کہ لیبیا کے زیادہ سے زیادہ سفارت کار اور اعلیٰ فوجی اہلکار معمر قذافی کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ کلنٹن کے بقول ان امکانات کو بھی غیر اہم نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ خود قذافی انتظامیہ میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل اور ہمدردیوں کی تبدیلیاں کتنی فیصلہ کن ہو سکتی ہیں۔
اٹلی میں روم س آنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اطالوی وزیر خارجہ فرانکو فراتینی نے اس سفارتی منصوبے کا بنیادی خاکہ وضع کر دیا ہے، جس کے تحت لیبیا میں موجودہ خونریز بحران کو غیر فوجی انداز میں ختم کیا جا سکتا ہے۔ فراتینی نے اطالوی اخبار ’لا ری پبلیکا‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایسے کسی منصوبے میں ممکنہ طور پر یہ بات بھی شامل ہو سکتی ہے کہ معمر قذافی جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے بیرون ملک چلے جائیں۔
فراتینی نے کہا کہ لیبیا کے تنازعے کا کوئی ایسا حل قابل تصور نہیں جس کے تحت کرنل قذافی آئندہ بھی اقتدار میں رہ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں ایک پلان موجود تو ہے اور وہ دیکھیں گے کہ آیا اسے ایک اطالوی، جرمن تجویز کی شکل دی جا سکتی ہے۔ فراتینی کے مطابق ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں ایک مشترکہ دستاویز آئندہ منگل تک پیش کر دی جائے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: شامل شمس