ماحولیاتی تبدیلیاں، متاثرہ ممالک کو کون ادائیگی کرے گا؟
7 نومبر 202220 سالہ ماحولیاتی کارکن ایرک نجگونا ناراض ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیاں ان کے ملک کینیا کو وسیع پیمانے پر متاثر کر رہی ہیں۔ اس ملک کے لوگ اپنے ذرائع آمدن، اپنے گھر، حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی کھو رہے ہیں۔ اس خطے کو گزشتہ 40 برسوں کی بدترین خشک سالی کا سامنا ہے۔
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں ایرک نجگونا کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہمیں پیاسا بنا رہی ہیں، ہماری بھوک میں اضافہ کر رہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ان تبدیلیوں کا اثر ہے، جو غم و غصے میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔‘‘
کینیا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور جہاں گرمی کی شدت میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں نے صرف کینیا کو ہی مصیبت میں مبتلا نہیں کیا بلکہ خشک سالی قرنِ افریقہ کے لاکھوں لوگوں کو فاقہ کشی کے دہانے پر لا چکی ہے۔
ابھی حال ہی میں پاکستان میں آنے والے موسم گرما کے سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 15 سو افراد ہلاک ہوئے اور اس ملک کو کئی بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایرک نجگونا کہتے ہیں کہ اس نقصان کی قیمت ادا کی جانا چاہیے۔
فیکٹ چیک: موسمیاتی شدت میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا کردار کیا؟
اس نقصان کے ازالے کے لیے عالمی سطح پر اٹھنے والی آوازوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ امیر ممالک کو ''لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ‘‘ کے لیے ادائیگیاں کرنا چاہییں، جہاں سے اُن ممالک کو رقوم فراہم کی جائیں، جن کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ کیا ہے؟
''لاس اینڈ ڈیمیج فنڈ‘‘ کا تصور سب سے پہلے سن 1991ء میں جزیرہ ممالک کے ایک چھوٹے سے اتحاد نے جنیوا میں ہونے والے بین الاقوامی ماحولیاتی مذاکرات کے دوران پیش کیا تھا۔ ان جزیرہ ممالک نے سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح کے خلاف ایک انشورنس اسکیم کی تجویز پیش کی تھی، جس کے اخراجات صنعتی ممالک کے ذریعے پورے کیے جانے کا کہا گیا تھا۔
لیکن اُس وقت اس تجویر کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا گیا تھا۔ دوبارہ اس حوالے سے سن 2013ء کی پولینڈ میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں بات چیت ہوئی اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔
''وارسا انٹرنیشنل میکانزم برائے گمشدگی و نقصان‘‘ کا مقصد اس اہم مسئلے کے بارے میں معلومات میں وسعت لانا اور اس سے نمٹنے کے طریقے تلاش کرنا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس حوالے سے بہت ہی کم پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔
گزشتہ سال سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس اجلاس میں بھی متاثرہ ممالک کے نقصان کے ازالے کے لیے ایک طریقہء کار وضع کرنے کے حوالے سے بات چیت کی گئی لیکن متعدد بڑے ممالک نے اس کی مخالفت کر دی۔ تاہم گلاسگو کانفرنس میں اس حوالے سے مزید بات چیت کرنے کے دروازے کھلے رکھے گئے۔
امیر ممالک ادائیگیوں سے کترا رہے ہیں
تاریخی لحاظ (1751ء سے 2017ء تک) سے بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے ذمہ دار امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ جیسے امیر ممالک ہیں۔ اس دوران ضرر رساں گیسوں کا 47 فیصد اخراج انہی ممالک کی طرف سے ہوا جبکہ پورے افریقہ اور جنوبی امریکی ممالک فقط چھ فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے ذمہ دار ہیں۔
اب یہی ترقی یافتہ ممالک ہیں، جو متاثرہ ممالک کی مالی معاونت کرنے میں سست روی سے کام لے رہے ہیں۔ سن 2010ء میں عالمی شمالی ممالک نے 2020ء تک سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔ مثال کے طور پر اس کا مقصد کسانوں کو ایسی فصلیں فراہم کرنا تھا، جو خشک سالی کا مقابلہ کر سکیں یا سیلاب سے بہتر دفاع کے لیے مالی مدد فراہم کرنا تھا۔
آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) کے مطابق سن 2020ء میں ان امیر ممالک نے صرف 83 بلین ڈالر امداد کے وعدے کیے، جو طے شدہ معاہدے سے بھی کم ہے۔
غیر سرکاری تنظیم کیئر انٹرنیشنل میں ماحولیاتی انصاف پر عالمی پالیسی کی شریک رہنما مارلین اچوکی کہتی ہیں کہ یہ مسئلہ امیر ممالک کا پیدا کردہ ہے اور انہیں ہی اس سے نمٹنے کے لیے رقوم فراہم کرنا چاہئیں۔
مارلین اچوکی کہتی ہیں، ''انہیں غربت اور تعلیم کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے موسمیاتی تبدیلیوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ کمیونٹیز ان مسائل سے نمٹ سکیں، اس کے لیے انہیں وسائل اور مالی معاونت مہیا کرنا ہو گی۔‘‘
سب سے اہم نقطہ کیا ہے؟
اگرچہ متعدد ترقی یافتہ ممالک ''لاس اینڈ ڈیمیج‘‘ کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن بہت سے ممالک کا یہ کہنا ہے کہ متاثرہ ممالک کی مدد موجودہ ''کلائمیٹ فنڈ‘‘ کے ذریعے کی جائے۔ مثال کے طور پر یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ ''لاس اینڈ ڈیمیج‘‘ کے موضوع پر گفتگو کے لیے تو تیار ہے لیکن وہ ایسا کوئی مخصوص فنڈ بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسٹاک ہوم انوائرمنٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ زوہا شاؤ کہتی ہیں، ''میرے خیال میں ایک خوف ہے کہ اگر یہ ممالک اضافی مالی ضرورت کو تسلیم کریں گے تو مطالبات کے نئے دروازے کھل جائیں گے، ذمہ داری اور معاوضے کے دعوؤں کے ایسے دروازے کھلیں گے، جن کی لاگت بہت زیادہ ہو گی۔‘‘
زوہا شاؤ مزید کہتی ہیں، '' مثال کے طور پر اگر سیلاب کی وجہ سے کوئی پُل گر گیا یا کسی ترقی پذیر ملک میں طوفان کے نتیجے میں مکانات تباہ ہو گئے تو ان ترقی یافتہ ممالک کو خوف ہے کہ ان کی ادائیگی کی ذمہ داری بھی ان پر ڈالی جائے گی۔‘‘
تاہم اس تمام تر بحث کے دوران کچھ ممالک نے اپنے راستے خود تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سال کے شروع میں ڈنمارک نے ترقی پذیر ممالک کے لیے ''لاس اینڈ ڈیمیج‘‘ کی مد میں 13 ملین ڈالر سے زیادہ رقم مختص کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ برس سکاٹ لینڈ نے ساحل ریجن کے لیے کم از کم ایک ملین ادا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
زوہا شاؤ کہتی ہیں کہ ترقی پذیر ممالک کو درپیش نقصانات کی فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انفرادی قوموں کی طرف سے یہ کارروائی ایک اچھا طریقہ ہے لیکن درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ دولت مند قومیں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو نمایاں طور پر کم کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔
اصل مسئلہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی کا ہے ورنہ مستقبل میں بھی قدرتی آفات تباہی مچاتی رہیں گی۔
لوئزے اوسبورن (ا ا / ع ا)