ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف ’مبہم اہداف‘
30 جولائی 2010ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ایک حالیہ رپورٹ میں گزشتہ تین دہائیوں کو گرم ترین قرار دیا گیا ہے۔ تاہم خبررساں ادارے روئٹرز نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے خلاف عالمی کارروائیوں میں آئندہ دو سال تک کوئی خاطرخواہ پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔
اس کی ایک وجہ مالیاتی بحران کو قرار دیا جا رہا ہے، جس کے باعث صعنتی ممالک کاربن کے اخراج میں کمی پر اٹھنے والے اخراجات پر توجہ دے رہے ہیں جبکہ گزشتہ برس کی کوپن ہیگن کانفرنس کی ناکامی سے ماحول دوست اقدامات کے لئے کی گئی سفارشات کو نقصان پہنچا ہے۔
ایمپیرئل کالج آف لندن کے ٹائم بیورک کہتے ہیں، ’مجھے شبہ ہے کہ یہ معاملات طویل عرصے تک سست روی کا شکار رہیں گے، آپ اس حوالے سے سیاسی سرگرمی کی بحالی سے قبل دو سے تین سال کے نظام الاوقات کی بات کر رہے ہیں۔‘
عالمی سطح پر قابل تجدید توانائی کی مارکیٹ کے لئے 2010ء کو ایک ریکارڈ سال قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کا سہرا مارکیٹ کے دستیاب معاونت کے سر ہے۔ تاہم ماحولیاتی معاہدے سے سرمایہ کاری حالیہ سالانہ 200 ارب ڈالر کی سطح سے اوپر جائے گی۔
اس حوالے سے عالمی اتفاق رائے کاربن کے اخراج کے لئے دباؤ بڑھائے گا۔ دوسری جانب امریکہ اور آسٹریلیا نے گزشتہ ہفتے کاربن کے اخراج کی سطح طے کے لئے قانون سازی میں تاخیر کی تصدیق کی ہے۔
برطانوی وزارت ماحولیاتی کے اعلیٰ سائنسدان رابرٹ واٹسن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے تاخیر مختلف حکومتوں اور ماحولیاتی گروپوں کے لئے مایوسی کا باعث ہو گی۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے رابرٹ سٹاوِنز کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ملکی سطح پر ماحولیاتی پالیسی بنے گی، لیکن کانگریس کی جانب سے ایکشن کے حوالےسے اس کی توقع کم ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی قانون سازی کے لئے مناسب ترین موقع باراک اوباما کے دوبارہ صدر بننے کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق