مانسہرہ میں گینگ ریپ، مدرسے کا استاد بھی گرفتار
14 مئی 2014مانسہرہ سے ملنے والی خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پريس کی رپورٹوں کے مطابق دینی مدرسے کے استاد قاری نصیر اور اس کے دو دوستوں پر الزام ہے کہ انہوں نے منگل تیرہ مئی کو ایک طالبہ کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ مقامی پولیس افسر ذوالفقار جدون نے صحافیوں کو بتایا کہ گرفتاری کے بعد تینوں ملزمان کو آج بدھ کو ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، جس نے انہیں چار روزہ تفتیشی ریمانڈ پر پولیس کی باقاعدہ تحویل میں دے دیا۔
ذوالفقار جدون کے مطابق مانسہرہ اور اس کے نواح میں کئی دینی تعلیمی مدرسے قائم ہیں اور اس جرم کا مرکزی ملزم قاری نصیر انہی مدرسوں میں سے ایک میں گزشتہ کئی سال سے بچوں کو قرآن کی تعلیم دے رہا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزمان نے ایک مقامی کالج کی ایک طالبہ کو اس کی ایک سہیلی کی مدد سے اس بہانے سے اپنی گاڑی میں بٹھایا کہ وہ اسے گھر چھوڑ دیں گے۔ بعد ازاں ان تینوں ملزمان نے مبینہ طور پر چلتی گاڑی میں اس طالبہ کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا۔
جرمن خبر ایجنسی ڈی پی اے نے حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ قاری نصیر مانسہرہ کے ایک نواحی گاؤں میں قائم ایک اسلامی مدرسے کا استاد ہے۔ اس نے گرفتاری کے بعد پہلے تو اپنے جرم کا اعتراف کر لیا تھا مگر بعد میں اس نے اپنا بیان بدل دیا۔ اپنے دوسرے بیان میں ملزم نے دعویٰ کیا کہ دونوں طالبات اس کے اور اس کے دو دوستوں کے ساتھ ’سیر کے لیے گاڑی میں سوار‘ ہوئی تھیں۔
مانسہرہ میں جب ملزمان کو آج صبح ایک مقامی عدالت میں پیشی کے لیے وہاں لایا گیا تو راستے میں اس جرم پر مشتعل شہریوں کے ایک ہجوم نے پولیس کی گاڑی پر پتھراؤ بھی کیا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات عام ہیں لیکن اکثر واقعات میں ملزمان سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔ ملزمان اگر سماجی طور پر بااثر ہوں تو متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے لیے عدالتی کارروائی کو یقینی بنانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
اگر معاملہ عدالت تک پہنچ بھی جائے تو متنازعہ سمجھے جانے والے موجودہ قوانین کے تحت درخواست دہندہ خواتین کے لیے ملزمان کا جرم ثابت کرنا تقریباﹰ ناممکن ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ملزمان کے خلاف الزامات ثابت نہ ہونے پر کئی واقعات میں تو جرم کا نشانہ بننے والی خواتین کو خود اپنے خلاف ناجائز جنسی تعلقات کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔