متنازعہ سائبر کرائم بل، آخری رکاوٹ بھی دور
11 اگست 2016پاکستان کی قومی اسمبلی نے گیارہ اگست بروز جمعرات سائبر کرائم بل منظور کر لیا۔ ملکی سینیٹ پہلے ہی اس متنازعہ بل کی منظوری دے چکی تھی جبکہ اب صدر کے دستخطوں کے بعد اس بل کو قانون کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے لیے بنایا گیا یہ قانون گزشتہ کئی ماہ سے پاکستان میں کافی گرما گرم بحث کا باعث بن ہوا تھا۔ اس بل کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد حکومت کو نہ صرف وسیع پیمانے پر لوگوں کی نگرانی کی اجازت مل جائے گی بلکہ ساتھ ہی سیاسی سطح پر طنز کرنے والوں کو بھی سزائیں دینا آسان ہو جائے گا۔
’بولو بھی‘ نامی ایک ڈیجیٹل رائٹس گروپ کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ اس قانون کی کچھ شقوں میں ایسی مبہم زبان استعمال کی گئی ہے، جن کے تشریح کرتے ہوئے کسی ایسے شخص کو بھی جرم ثابت کیا جا سکے گا، جو کسی حکومتی اہلکار کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر تنقید کا نشانہ بنائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کی زد میں آنے والوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جانا آسان ہو جائے گا کہ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔
اس قانون کے تحت عام شہریوں کی پرائیویسی میں دخل اندازی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس کے ذریعے کسی بھی قسم کا استحصال، انفارمیشن انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشت گردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات اور ای میلز، کسی بھی ڈیٹا بینک تک غیرقانونی رسائی وغیرہ سب عمل قابل سزا ہوں گے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم گل بخاری کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت حکومت شہریوں کی ذاتی معلومات ان کی اجازت اور کسی عدالتی فریم ورک کے بغیر ہی غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں کو فراہم کرنے کے قابل بھی ہو جائے گی۔
اس بل کا دفاع کرتے ہوئے آئی ٹی منسٹر انوشہ رحمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کا ایک نظام بھی بنایا گیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایسا بھی نہیں کہ اس بل کا غلط استعمال ہو سکے گا۔
رحمان کے مطابق زیادہ تر جرائم پر حکومت کو عدالت سے رجوع کرتے ہوئے ملزمان کے وارنٹ حاصل کرنا ہوں گے تاہم صرف سائبر دہشت گردی اور چائلڈ پورنوگرافی کے لیے یہ لازم نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم بل کے تحت کسی ملزم کو سزا دینے کے لیے اس کی غیر ایماندارنہ نیت‘ بھی ایک اہم شرط ہو گی۔
پاکستان میں آزادی رائے کی حمایت کرنے والے سرکردہ کارکنان کا کہنا ہے کہ مذہب کی حرمت اور فحاشی کی روک تھام کے بہانے ملک میں سنسر شپ میں آہستہ آہستہ مزید سختی لائی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ سائبر کرائم بل کے تحت کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے جرائم کی روک تھام کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد ایسے جرائم قابل سزا ہوں گے جبکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سکیورٹی اور دفاع کے خلاف آن لائن مواد کو ہٹانے کی مجاز ہو جائے گی۔