’مجھے شرم آتی ہے، پردہ پوشی کرنے والوں پر‘
25 ستمبر 2018جرمن کارڈینل مارکس کے بقول، ’’چرچ میں ہم نے ایک طویل عرصے تک آنکھیں چرائے رکھیں، انکار کیا اور پردہ پوشی کی کوشش کی اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ واقعات سچ ثابت ہوں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سات دہائیوں میں جنسی استحصال کے واقعات کے بارے میں سامنے آنے والے جائزے کے نتائج سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے، ’’ابھی بہتری کا عمل ختم نہیں ہوا۔‘‘
ان کے بقول جنسی استحصال ایک جرم ہے اور جو اس کے ذمہ دار ہیں انہیں سزا ملنا چاہیے۔ اپنے اس بیان میں انہوں نے مزید کہا، ’’تمام غلطیوں اور متاثرین کو پہنچنے والے دکھ پر میں آپ سے معافی کی درخواست کرتا ہوں۔‘‘
یہ بیان انہوں نے منگل کو جرمنی کے کیتھولک بشپس کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ یہ اجلاس جنسی استحصال کے موضوع پر کرائے جانے والے جائزے کے نتائج سامنے آنے کے بعد خصوصی طور پر بلایا گیا تھا۔
ابھی حال ہی میں جرمن بشپس کانفرنس کے ایماء پر کرائے گئے ایک جائزے سے معلوم ہوا کہ 1946ء سے 2014ء کے درمیان 1670 پاردی جنسی استحصال کے واقعات میں ملوث رہے تھے۔ ان چھ دہائیوں کے دوران مبینہ طور پر متاثر ہونے والے3677 افراد میں سے زیادہ تر تیرہ سال سے کم عمر لڑکے تھے۔
مزید یہ کہ ان واقعات کے بارے میں کلیسا میں جو دستاویزات تیار کی گئی تھیں، انہیں یا تو ضائع کردیا گیا تھا یا پھر ان میں رد و بدل کر دیا گیا، جس کی وجہ سے جنسی استحصال کے ان واقعات کی تہہ تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
دنیا کے مختلف ممالک میں پادریوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ ان میں امریکا، آئرلینڈ، آسٹریلیا اور پاپائے روم پوپ فرانسس کا آبائی ملک ارجنٹائن بھی شامل ہیں۔