1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‘

عاطف بلوچ13 ستمبر 2016

امیر اور ولاء کے لیے یونان میں مزید رہنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی کبھار تو وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ وہ دوبارہ شورش زدہ ملک شام واپس چلے جائیں، جہاں سے فرار ہونے کی خاطر انہوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں۔

https://p.dw.com/p/1K1SK
Griechenland Flüchtling im Flüchtlingslager bei Idomeni
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic

تھکن اور بے چینی کے شکار امیر کا کہنا ہے، ’’میں جانتا ہوں کہ شام میں جنگ جاری ہے، وہاں بمباری روز کا معمول بن چکی ہے۔ لیکن وہاں موت صرف ایک مرتبہ ہی آتی ہے، یہاں ہمیں روز مرنا پڑتا ہے۔ یہاں یونان میں تو ہر دن ہی بُرا ہوتا ہے۔‘‘ گزشتہ چھ ماہ سے وہ اپنی اہلیہ ولاء اور دو بچوں کے ساتھ ایک ٹینٹ میں رہنے پر مجبور ہیں۔

بحیرہ ایجیئن کے کنارے پر واقع خیوس نامی جزیرے پر اپنی رات دن گزارنے والا یہ جوڑا پناہ کی اپنی درخواست تسلیم کیے جانے کا متمنی ہے لیکن امیدیں دم توڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ شام میں یہ دونوں ٹیچر کے طور پر کام کرتے تھے لیکن مہاجرت کے بعد اب یونان میں نہ تو ان کے پاس کوئی ملازمت ہے اور نہ ہی پیسے۔ سودا مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر وہ ایسے ہزاروں افراد میں سے ہیں، جو یونان کے متعدد مہاجر کیمپوں میں ابتر حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔

سودا کیمپ میں مہاجرین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کیمپ میں رات کے وقت ہلڑ بازی ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ ولاء نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ غروب آفتاب کے بعد اپنے ٹینٹ سے نہیں نکلتی کیونکہ وہ خوفزدہ ہے۔ وہ اپنے چھ اور آٹھ سالہ دو بچوں کے لیے بھی فکرمند رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں لوگ اکثر ہی رات کے وقت شراب کے نشے میں دھت جھگڑا کرتے رہتے ہیں۔

امیر اور ولاء شامی شہر حمص سے فرار ہو کر ترکی کے راستے انیس مارچ کو یونان پہنچے تھے۔ اس کے ایک دن بعد ہی ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین سے متعلق ایک معاہدے پر عملدرآمد شروع ہو گیا تھا، جس کے تحت ایسے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کر دیا جائے گا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جائیں گی۔ اس جوڑے کے دو مرتبہ انٹرویوز ہو چکے ہیں لیکن انہیں نہیں معلوم کہ پناہ کی درخواست پر کیا جواب سامنے آئے گا۔

روئٹرز سے گفتگو میں پریشان حال شامی مہاجر خاتون ولاء نے کہا، ’’ہم انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ چائے میں چینی ملاتے ہوئے روہانسی آواز میں ان کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن کس بات کا انتظار کر رہے ہیں، یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔‘‘

جب سے بلقان ریاستوں نے یونان سے متصل اپنی سرحدی گزر گاہوں کو بند کیا ہے، یونان میں مجموعی طور پر ستاون ہزار مہاجرین پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر شامی، افغان اور عراقی ہیں۔ انسانی حقوق کے اداروں نے کہا ہے کہ ان مہاجرین کو انتہائی ابتر حالات کا سامنا ہے، اس لیے عالمی برادری کو اس بحران پر قابو پانے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنا چاہییں۔

یونان کے اسی مہاجر کیمپ میں موجود ایک اور شامی مہاجر محمد الجاسم کے مطابق اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا، اس لیے وہ دیر الزور سے فرار ہونے پر مجبور ہوا۔ اس نے کہا کہ وہ لوگوں کو نہیں مارنا چاہتا تھا، اسی لیے اس نے ہتھیار اٹھانے کے بجائے شام چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس چھبیس سالہ طالب علم کے مطابق وہ جرمنی جانے کو خواہشمند ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید