محمد حسنی سید مبارک اور ان کا طویل اقتدار
29 جنوری 2011سیاست میں قدم رکھنے سے قبل مبارک، ملکی فضائیہ کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ اس دوران وہ پیشہ ورانہ امور کے سلسلے میں سابقہ سوویت یونین میں بھی رہے۔ حسنی مبارک وہاں سے لڑاکا طیاروں کی تربیت بھی حاصل کرچکے ہیں۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں وہ کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے ہوئے پہلے نائب وزیر دفاع اور پھر ایئر چیف مارشل بنے۔ اس سے قبل وہ 73ء کی عرب، اسرائیل جنگ کے دوران فضائیہ میں کمانڈر تھے۔
مبارک بین الاقوامی سیاست میں اس وقت فعال ہوئے جب صدر سادات نے انہیں بطور نائب صدر کئی ممالک کے دوروں پر بھیجا۔ اس کردار میں وہ صدر سادات کی پالیسیوں کی مکمل حمایت کرتے رہے۔ چھ اکتوبر 1981ء کو ملکی فوج کے چند اہلکاروں نے سالانہ پریڈ کے موقع پر صدر سادات کو جس قاتلانہ حملے میں ہلاک کیا، مبارک اس میں بال بال بچے۔ اس کے بعد وہ ملک کے صدر بنے اور اب اس عہدے پر سب سے زیادہ عرصہ رہنے والے مصری حاکم بن گئے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ مصالحانہ رویے کی وجہ سے عرب دنیا، مصر سے ناراض تھی۔ مبارک کی کوششوں سے 1989ء میں مصر دوبارہ عرب لیگ کا رکن بنا اور اس تنظیم کا صدر دفتر پھر سے قاہرہ منتقل کردیا گیا۔ اگرچہ زمانہ ء سرد جنگ میں مصر، سابقہ سوویت یونین کے قریب تصور کیا جاتا تھا مگر اس کی بین الاقوامی پالیسی میں وقت کے ساتھ تبدیلی دیکھی گئی۔
1991ء کی خلیج جنگ میں حسنی مبارک کے روابط امریکہ سے گہرے ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ کویت پر عراقی حملے کے خلاف مصری فوجی فراہم کرنے پر انہیں فی کس پانچ لاکھ ڈالر دیے گئے تھے۔ جنگ کے بعد مصر کے ذمہ 20 ارب ڈالر کا قرضہ بھی معاف کردیا گیا تھا۔
اس کے بعد کے وقتوں میں وہ عوامی ریفرنڈم کے ذریعے اقتدار سے جڑے رہے۔ اسی اثنا میں بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے نتیجے میں انہوں نے 2005ء میں ملکی آئین میں جمہوری اصلاحات متعارف کروانے کا اعلان کیا۔ اس طرح وہاں ان کے دور میں پہلی بار ریفرنڈم کے بجائے عام انتخابات ہوئے مگر تمام تر انتظامات اور میڈیا صدر مبارک کے کنٹرول ہی میں رہا اور وہ صدر منتخب ہوئے۔
مصری عوام کے ایک حلقے کا خیال ہے کہ مبارک اب اپنے چھوٹے بیٹے جمال کو عہدہ ء صدارت پر براجمان دیکھنا چاہتے ہیں۔
82 سالہ حسنی مبارک کی حکومت گزشتہ تین دہائیوں سے امریکی امداد وصول کر رہی ہے۔ قیاس آرائیاں یہ ہیں کہ واشنگٹن نہیں چاہتا کہ ان کی جگہ شدت پسند مذہبی حلقے اقتدار پر قابض ہوجائیں۔ حالیہ حکومت مخالف مظاہروں میں مصر کی اپوزیشن ’اخوان المسلمون‘ کا کردار بظاہر نمایاں نہیں ہے۔ امریکہ اوسط بنیادوں پر سالانہ دو ارب ڈالر مصر کو فراہم کرتا ہے۔ کانگریس کی رپورٹ کے مطابق مصر کو فراہم کی جانے والی عسکری امداد کا تخمینہ سالانہ ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : افسر اعوان